سپریم کورٹ آف پاکستان کے نئے چیف جسٹس‘ جسٹس گلزار احمد نے عہدے کا حلف اٹھا کر اپنی آئینی ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ سپریم کورٹ‘ چاروں صوبوں کے ہائیکورٹس‘ ملک بھر کے سیشن و ڈسٹرکٹ کورٹس اور تحصیل کی سطح پر کام کرنے والی عدالتیں چیف جسٹس کی ٹیم کے طور پر کام کریں گی۔ نئے چیف جسٹس نے اپنے پیشرو جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس کے موقع پر کہا کہ ’’کرپشن ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ریاست کے ہر ادارے سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہو گا اور بدعنوانی میں ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمٹنا ہو گا۔‘‘ چیف جسٹس گلزار احمد نے جن حالات میں منصب سنبھالا ہے وہ کئی حوالوں سے تشویشناک ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر حکومت اور پاک فوج جس پیرائے میں ردعمل دے رہی ہیں وہ کسی اور رخ کا پتہ دیتا ہے۔ عدلیہ کو سیاسی و انتظامی نوعیت کی مداخلت کا سامنا رہا ہے۔ اس طرح کی مداخلت کے ذریعے ججوں کو مجبور کیا جاتا رہا ہے کہ وہ قانون اور آئین کو نظر انداز کر کے مخصوص فرد یا گروپ کے مفادات کو سامنے رکھیں۔ یہ سب ایک تواتر سے ہوتا آیا ہے اس لئے عوام میں اس عمل کے خلاف ایک سوچ پروان چڑھی۔ عدالتی فیصلوں پر سوشل میڈیا پر جس طرح تبصرے ہو رہے ہیں اس کا پس منظر یہی صورت حال ہے۔ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ نے مقدمات کو جلد نمٹانے کے لئے ماڈل کورٹس کا مفید نظام متعارف کرایا۔ مختصر مدت میں ماڈل کورٹس کئی لاکھ مقدمات کا فیصلہ کر چکی ہیں۔ تیز رفتاری سے سماعت اور فیصلوں نے عدلیہ کا وقار بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے اب تک جن نمایاں مقدمات کی سماعت کی ان میں پانامہ کیس نے بڑی شہرت پائی۔ اس فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا تھا کہ ’’عوامی عہدیدار کی حیثیت سے میاں نواز شریف کی ذمہ داری تھی کہ وہ لندن فلیٹس کے متعلق حقائق عوام اور عدالت کے علم میں لاتے لیکن ایسا نہ کر کے وہ آئین کی شق 62کے تحت صادق اور امین نہیں رہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے بطور جج کراچی میں ایمپریس مارکیٹ‘ گارڈن مارکیٹ اور صدر میں غیر قانونی تجاوزات کے خلاف آپریشن کا حکم دیا‘ ایک فیصلے میں انہوں نے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ’’اسلام آباد کا حلیہ بگاڑ دیا گیا ہے۔ یہ آدھا شہر اور آدھا گائوں بن گیا ہے‘‘ عام شہریوں کے مسائل پر ان کی مسلسل توجہ رہی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی کمی پر انہوں نے متعلقہ اداروں کی سرزنش کی۔ چند ماہ قبل کراچی میں مون سون کی بارشوں نے تباہی مچا دی۔ اس تباہی میں اضافہ بجلی کی تنصیبات میں کرنٹ آنے اور اس کی زد میں آنے والے متعدد شہریوں کی ہلاکت تھی۔ جسٹس گلزار احمد نے کے الیکٹرک کی غفلت پر اس کی سرزنش کی۔ نئے چیف جسٹس آف سپریم کورٹ کے سامنے ڈیم فنڈ کے مستقبل اور بار و بنچ کے تعلقات بھی مسائل کی صورت میں آ سکتے ہیں۔ محترم چیف جسٹس نے کرپشن کو ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیاہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی لگ بھگ اسی طرح کی سوچ رکھتے ہیں۔ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ ریاستی اداروں کے مابین انسداد بدعنوانی کے حوالے سے روبہ عمل پالیسیوں پر اتفاق برقرار رہے گا۔ یہ اتفاق اس لئے بھی ضروری ہے کہ ملک میں احتساب کے عمل کو بعض حلقے متواتر متنازع بناتے رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ احتساب اور احتساب سے اداروں پر اعتراض وہ لوگ کرتے ہیں جن پر برسوں سے بدعنوانی کے مقدمات چل رہے ہیں اور جو ٹھوس قانونی شواہد کو مختلف ہتھکنڈوں سے غیر موثر بنانے کی شہرت رکھتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف احتساب چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہو۔ انہوں نے نیب کی تشکیل نو کی۔ نیب نے کئی لوگوں کے خلاف مقدمات درج کئے لیکن پھرسیاسی مصلحت نے کام دکھانا شروع کر دیا۔ جیلوں میں بند ملزم باہر آنے لگے۔ 2008ء سے 2018ء تک۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا اقتدار رہا۔ اس دس سالہ مدت میں بدعنوانی کے درجنوں سکینڈل منظر عام پر آئے لیکن قانونی عمل کو ان کا محاسبہ کرنے سے روک دیا گیا۔ دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کے اراکان کو تحفظ دیا۔ عمران خان نے تحریک انصاف کی بنیاد رکھی تو اس میں بدعنوانی کے خاتمہ اور جلد انصاف کی فراہمی جیسے وعدے منشور کا حصہ بنائے گئے۔ برسر اقتدار آنے کے بعد جس امر پر انہوں نے سمجھوتہ نہ کیا وہ احتساب کا عمل ہے۔ تحریک انصاف نے عدالتی امور میں مداخلت نہ کر کے اچھا کام کیا تاہم جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بدعنوانی کے خلاف مقدمات پر خصوصی توجہ دے کر عوام کی دلی آرزو پوری کی۔ ان دنوں دیکھا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت ملنے کے بعد نیب اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی حراست میں ان دوسرے افراد کو بھی ضمانتوں پر رہائی مل رہی ہے جن پر بدعنوانی‘ سرکاری خزانہ لوٹنے اور ایسے دوسرے الزامات ہیں۔ قانونی عمل میں کوئی سقم یا نقص ہے تو اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے احتساب عدالت‘ انسداد دہشت گردی عدالت یا دیگر عدالتوں کی رہنمائی ہونی چاہیے تاکہ انصاف اپنی کھوئی ساکھ بحال کر سکے۔ موجودہ دور میںایسا نہ ہوا تو کوئی ایسی حکومت آ سکتی ہے جسے بدعنوانی کے خاتمہ میں دلچسپی نہ ہو۔ عدلیہ کو یہ طے کرنا ہو گا کہ اگر کوئی شخصیت گنا ہگار ہے تو اسے سزا ملے‘ مقدمات کو برسوں تک التوا میں رکھا جائے تو بے گناہوں کے ساتھ ظلم ہو گا۔