افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ہونے جا رہا ہے اب پاکستان پر امریکی دبائو بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ سرزمین پاکستان پر ایک بار پھر امریکی اڈے قائم کرنے کی اجازت دی جائے گو کہ ترجمان وزارت خارجہ نے اس ضمن میں حکومت پاکستان کا موقف کھل کر بتا دیا ہے کہ اب پاکستان کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا امریکہ کے عسکری اور سفارتی ذرائع نے حکومت پاکستان سے رابطہ بدستور قائم کر رکھا ہے کہ پاکستان کے فضائی اور زمینی راستے امریکی افواج کو استعمال کرنے کی سہولت فراہم کی جائے کہ جب امریکی افواج افغانستان سے باہر نکلتی ہیں تاکہ وہ اپنا جنگی سازو سامان باحفاظت پاکستان کے راستے لے جا سکیں ماضی میں جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کا شمسی بیس امریکی فوج کو دے رکھا تھا اس کے بعد آصف علی زرداری نے اپنے دور حکومت میں حسین حقانی کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں امریکی بلیک واٹر اور سی آئی اے کے دیگر اہلکاروں کو پاکستان آنے کے ویزے جاری کروائے ان دنوں میں اسلام آباد میں امریکی سفارتی مشن ایشیا کا سب سے بڑا نیٹ ورک تھا اس کے علاوہ بھارتی خفیہ ایجنسی’’را‘‘ اور اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’’موساد‘‘ کو بھی افغانستان میں مشترکہ نیٹ ورک چلانے کی بھر پور سہولت فراہم کی گئی ایک طرف پاکستان اور دوسری طرف چین کے خلاف خفیہ طور پر جاسوسی کا جال بچھایا گیا ان ہی کارروائیوں کے نتیجے میں سرزمین پاکستان پر دہشت گردی بھی کروائی گئی حتیٰ کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو بھی نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اس پورے کھیل میں بھارت اور اسرائیل مل کر کارروائی کرنے والے تھے‘ پاکستان دشمن قوتیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور سی پیک کی سخت مخالف ہیں کیونکہ پاکستان اب خطے میں مرکزی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ بھارت پاکستان کے اندر ہر وہ حربہ استعمال کرتا ہے جس سے پاکستان میں سیاسی طور پر محاذ آرائی قائم رہے اور پھر معاشی طور پر پاکستان کو بحرانی صورت حال میں مبتلا رکھا جائے اس سلسلے میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ہمیشہ کی طرح اپنے مشن پر کام کر رہی ہے پاکستان میں صحافت کے حوالے سے جو پروپیگنڈہ بھارتی میڈیا کر رہا ہے یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ یہ ایک منظم سازش ہے جس کا جال اب بنا جا رہا ہے اس میں بھارت کا کردار کلیدی ہے۔ پاکستان پوری مسلم امہ میں واحد ایٹمی قوت ہے اور پھرپاکستان چین کے ساتھ مل کر جس معاشی ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے اس سے خطے میں پاکستان کو منفرد حیثیت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر بھی سفارتی کامیا بیاں ملی ہیں جس کی واضح مثال حالیہ دنوں میں ترکی‘ سعودی عرب اور دیگر مسلم ریاستوں کی مشترکہ سفارت کاری ہے جو کہ اقوام متحدہ میں دیکھی گئی ہے اس میں پاکستان کا کردار بڑا واضح ہے۔کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے پاکستان کی سفارت کاری اقوام عالم میں اعلیٰ حیثیت سے ہمکنار ہوئی ہے پاکستان کا موقف تسلیم کیا جانے لگا ہے جو کہ بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔ فلسطین اور کشمیر میں جو مظالم ڈھائے جا رہے یہ مسلم امہ کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔افواج پاکستان جس کو اب پوری دنیا میں قدر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور پاکستان مخالف قوتیں بھی یہ تسلیم کرتی ہیں کہ پاکستان نے جس طریقے سے دہشت گردی کے ناسور پر قابوپایا ہے اور پاکستان کے قبائلی علاقوں سے جس طرح دہشت گردوں اور شدت پسند عناصر کا خاتمہ کیا ہے اس میں افواج پاکستان کی پیشہ وارانہ مہارت ہی ہے جو کہ پاکستان کو محفوظ بنائے ہوئے ہے۔ برطانوی اور امریکی افواج کے اعلیٰ افسران سے لندن میں بعض سفارتی تقریبات میں گفتگو کرنے کا موقعہ ملتا ہے تو وہ بڑے واضح الفاظ میں افواج پاکستان کے کردار کو سراہتے ہیں ۔چند مخصوص لوگوں نے جس طریقے سے ایک حساس ادارے کے خلاف اپنی مہم شروع کر رکھی ہے یہ ریاست پاکستان کے خلاف گہری سازش ہے۔جو یقینا غیر ملکی ایجنڈے کی کڑی ہے جو کہ دیگر مسلم ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں ذرا تھوڑا ماضی میں دیکھیں کہ جب سرزمین پاکستان پر امریکی افواج نے رات کے اندھیرے میں آپریشن کر کے اسامہ بن لادن کو جان بحق کیا یہ فوجی کارروائی کو پاکستان کی قومی سلامتی اور یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی تھی لیکن اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے اس آپریشن پر امریکی صدر بارک حسین اوباما کو مبارکباد دی تھی۔ بارک حسین اوباما اپنی کتاب A Promised Landکے صفحہ نمبر 696پر اس آپریشن کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب میں نے پاکستان کی سرحدی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ آپریشن کرنے کی اجازت دی اور پھر اس آپریشن کے بعد صدر آصف علی زرداری کو فون کیا تو میرا خیال تھا کہ میری یہ فون کال انتہائی مشکل ہو گی اور مجھے تلخ الفاظ سننے کو ملیں گے مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ آصف علی زرداری نے ہمارے اس آپریشن پر ہمیں مبارکباد دی اور امریکی افواج کی تعریف کی۔ میاں نواز شریف بطور وزیر اعظم پاکستان امریکی صدر بل کلنٹن سے پاکستان میں اپنی حکومت برقرار رکھنے کی غرض سے امریکی حمایت مانگتے رہے اور ساتھ ہی وزیر اعظم ہائوس میں امریکی فوجی کمانڈوں کی کمانڈ بھی حاصل کرنا چاہتے تھے جو کہ فوجی بغاوت کی صورت میں ان کی حفاظت کر سکیں اور فوجی مداخلت کو ناکام بنانے میں کارگر ثابت ہو سکیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جو کہ اب تاریخ کا حصہ ہیں اور عالمی سطح پر شائع ہونے والی کتابوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اب خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال کے پیش نظر پاکستان میں قومی یکجہتی کا مظاہرہ کیا جائے اور قومی اداروں پر بے جا کیچڑ نہ اچھالا جائے اور ساتھ ہی ابن الوقت اور بدعنوان حکمرانوں کی خاندانی اجارہ داریوں سے نجات حاصل کی جائے۔