مکرمی ! وطن عزیز کی سیاست ، ریاست اور حکومت میں وعدئوں ، دعوئوں ، بیانات اور اعلانات کے کالے بادل اس قدر گہرے ہیںکہ یقین کا سورج نظر آنا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ ہر حکومت کی کارکردگی بیانات سے شروع ہو کر اعلانات پر ختم ہوجاتی ہے۔ روٹی کپڑا مکان کا مذاق ، بھوک غربت بے روزگاری کے خاتمے کا مذاق ، قرض اتارو ملک سنوارو کا مذاق۔ المیہ تو یہ ہے کہ ہر بار کا مذاق پہلے سے کہیں زیادہ سنگین اور جان لیوا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غریب اور عام آدمی سمجھ ہی نہیں پاتا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ستر سال کی یہ سنگین کہانی آج خطرناک رخ اختیار کر چکی ہے ایک پہر کے کھانے کے لیے چار پہر پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور اس کے باوجود روٹی کا حصول ناممکن ہے۔شدید معاشی بحران ، ڈالر کی اڑان ، منہ زور مہنگائی اور آٹے کی قلت کے دوران گزشتہ روز وزیر اعظم کی طرف سے یہ بیان ہے ایسی صورتحال میں حکومت کی طرف سے رمضان میں مفت آٹے کی فراہمی کا اعلان خوش آئند ضرور ہے۔ مگر یہ کس طرح ممکن ہوگا اور اس کا طریقہ کار کیا ہوگا اس کا جواب فی الحال تو ملتا دکھائی نہیں دیتا۔ مگر اس سے قبل سستے آٹے کی فراہمی کے طریقہ کار کو دیکھتے ہیں تو ڈر لگتا ہے کہ غریب عوام کے ساتھ ایک بار پھر مذاق نہ ہو جائے۔ کیونکہ اس سے قبل غریب عوام کو ریلیف دینے کے جتنے بھی اعلانات ہوئے ان سے ریلیف کم اور تکلیف زیادہ ملی ہے۔ مگر پھر بھی ہم حکمرانوں سے گزارش کریں گے کہ آپ نے غریب عوام کے ساتھ ریلیف کے نام پر جتنے مذاق کر لیے سو کر لیے مگر آٹے کا مذاق نہ کیجئے گا صاحب ! اگر بھوک کا لاوا کبھی پھٹ پڑا تو تمہیں منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔ (مظہر اقبال کھوکھر)