ہمارے ہاں تاریخ مسلسل دہرائی جارہی ہے مگر کیا مجال ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک رینگ جائے۔ شیکسپیئر کے ڈرامے کی طرح کاسٹیوم … انیس بیس کے فرق کے ساتھ بدل بدل کر یہ سارے کردار سٹیج پر آرہے ہیں۔ اپنا کردار عین غین کی حد تک ادا کرتے ہیں اور بس۔ سب کچھ ہے مگر کچھ بھی نہیں ۔جمہوریت تو جنہوں نے ایجاد کی، اُن کے ہاں بھی نہیں تو پھر کیسا شکوہ، کہاں کی شکایت؟ یہاں جمہوریت ٹیسٹ میچ جیسی ہو کہ ٹی ٹونٹی کی طرح، بال ٹو بال رننگ کمنٹری کا کلچر بن سا گیا ہے۔ ہر کہانی ۔۔ حکایت اور کہاوت کا مرکزی خیال یہی ہوتا ہے۔ محبتوں میں عجب ہے دِلوں کو دھڑکا سا۔۔ نہ جانے کون کہاں راستہ بدل جائے۔ صاحب، راستے تو ہوتے ہی بدلنے کے لیے ہیں کہ آدم کے بیٹے کو کسی پل قرار کہاں۔ بات جب پاورپلے کی ہو تو پھر کیسی اخلاقیات اور کیسے وعدہ وپیمان۔ تازہ ترین شوشا ہے الیکشن 2022ء یا 2023ء ۔ پنڈت خاص طور پر دارالحکومت کے سیاسی پنڈت سرگوشیاں کررہے ہیں۔ راھو اور کیتو کا حساب لگا رہے ہیں۔ طالع برج کا پتہ لگا رہے ہیں مگر خان نے اپنے سارے کارڈز اپنی آستین میں چھپا رکھے ہیں۔ فراز کے مطابق وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں ۔۔۔ انہیں کہیں سے بلائو بڑا اندھیرا ہے۔ مگر کاریڈور زآف پاورز میں مشورے ہیں کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔۔ کونسے چراغ؟ کیس روشنی ؟ جمہوریت نہ اچھی ہوتی ہے نہ بُری۔۔ بس جمہوریت ہوتی ہے۔ اچھے برے معاشرے ہوتے ہیں یا پھر اُن کی روایات اور کلچر۔ بات زیادہ ثقیل کرنی ہو تو سیاسی کلچر۔ یاد دلانا ہے کہ ہمارے ہاں ایک آئین بھی ہے اور پارلیمنٹ بھی۔ ان کی کتنی اہمیت ہے ؟ اُتنی کہ آج کل وقت پر الیکشن ہوتے ہیں اور اقتدار بھی منتقل اور پھر پارلیمنٹ بھی اصلی۔ مگر شاید اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے کہ پارلیمنٹ کو حکومت اور اپوزیشن دونوں سیریس نہیں لیتے، نہ جانے کیوں؟ شاید اس لیے ہی مولانا اور مریم اس پارلیمنٹ سے باہر رہتے ہیں کہ اندر جا کر کیا لینا ہے ،جو لینا ہے باہر بیٹھ کر لے لو، کہ شہباز اور بلاول بھی تو اندر ہیں ، کیا فرق پڑتا ہے۔ فرق صرف پڑتا ہے تو خان کو۔ پارلیمنٹ ہونی چاہیے ، حکومت بھی اور اپوزیشن بھی۔ سارا کھیل یہ ہے کہ کون بنے گا وزیر اعظم۔ اگر 2018ء میں بڑے بھائی کام خراب نہ کرتے تو شاید آج چھوٹے میاں صاحب بھی پارلیمنٹ کو بھلا کر اگلے الیکشن کی حکمت عملی بنا رہے ہوتے۔ مگر اب یہ سب کچھ خان صاحب کر رہے ہیں۔ اُن کی خوش قسمتی کہ اپوزیشن اُتنی ہی بکھری ہے ۔۔ کبھی ایسی تو نہ تھی جیسی اب ہے۔ اس کھیل میں سب کچھ ٹائمنگ ہی ہوتی ہے۔ خان اس حکمت عملی سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ جب سندھ اور پنجاب کی اپوزیشن والوں سے پوچھا گیا دوران گفتگو کیا آپ وقت سے پہلے انتخابات کے لیے تیار ہیں تو آف دی ریکارڈ جواب تھا ’’نہیں ،ہرگز نہیں‘‘۔ مریم نواز ہوں کہ شہباز نواز میچور پنڈت کہتے ہیں کہ پانامہ کے شروع ہوتے ہی اگر 2016ء میں ہی بڑے میاں صاحب الیکشن کروادیتے تو فریش مینڈیٹ سے بات بگڑنے کی بجائے مزید بن جاتی۔ مگر بڑے میاں صاحب کی کمزور قوت فیصلہ آڑے آئی اور بات جا پہنچی عدالتی فیصلے تک۔ اب اگر خان صاحب الیکشن 2023ء کے بجائے 2022ء میں کرواتے ہیں تو اپوزیشن کو نقصان ہوگا جس کا انحصار صرف اور صرف مہنگائی پر ہے۔ اپنی خوبیوں پر نہیں، مقابل کی خامیوں پر ہے۔ باخبر پنڈت کا کہنا تھا کہ 2023ء خان کو سوٹ نہیں کرتا۔ پوچھا کیوں؟ جواب آیا، کچھ اہم عہدوں پر کچھ حساس تعیناتیاں ہونی ہیں۔ خان اس پٹاری کے کھلنے سے پہلے ہی الیکشن کروا کر میچ کا نتیجہ محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر ایک چھوٹے پنڈت نے دست بستہ دوسرا سوال رکھ دیا۔ اس وقت پاکستان آئی ایم ایف، فٹیف اور امریکہ کی گرفت میں مچل رہا ہے۔ وہ داعش اور ٹی ٹی پی کا ڈرون تعاقب بھی کرے گا۔ یہاں چین اور پاکستان کا تعاون متاثر ہوگا۔ اس سے حکومت کے لیے دبائو بڑھ نہ جائے گا؟ پنڈت نے اپنی نظر کی عینک اتاری، اس کے شیشے صاف کیے ،دوبارہ ناک پر ٹکائی اور مسکراتے ہوئے ’’ابھی کچھ وقت لگے گا یہ سارے پنڈورا باکس کے کھلنے میں 2022ء تک سلسلے ابھی منطقی انجام سے دور ہوں گے۔ شدت اور حدت 2022ء کے وسط کے بعد زیادہ بڑھ جائے گی‘‘۔ میں نے بے چینی سے پہلو بدلا تو پنڈت بولے ’’پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ان سارے خطرات سے بخوبی آگاہ ہے۔ وہ سیاسی فوکس کی خواہش مند ہے۔ سویلین فوکس، فوجی ارتکاز کی بھی۔ ان نزاکتوں سے نپٹنے کے لیے وہ صرف سیاسی محاذ پر انتشار کو ناپسند کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ خان کو فری ہینڈ دے رہے ہیں۔ اب یہ خان پر ہے کہ وہ پارٹ آف دی پرابلم بنتے ہیں یا پارٹ آف دی سلوشن۔ یہ اب خان پر ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے اندرونی اختلافات کو اپنے فائدے کے لیے کیسے استعمال کرتے ہیں یا اپوزیشن پر کہ وہ عام آدمی کی دشواریوں کو خان کے خلاف کیسے اپنی ووٹنگ قوت میں بدلتی ہے۔ ہمارا ایک ساتھی بڑی خاموشی سے ساتھ سب کچھ سن رہا تھا۔ موصوف نے ہاتھ اٹھایا، پنڈت نے سرہلایا، تووہ کہنے لگا ’’سر مجھے تو لگتا ہے کہ ہمارے اندر اور باہر بہت سی فالٹ لائنز ہیں۔ ہمارا دشمن ان دراڑوں میں ہی کھیلتا ہے۔ سیاسی اتار چڑھائو۔۔۔ کھیل کا حصہ ہیں۔ ہمیں اپنا گھر درست کرنا ہوگا۔ پنڈت نے مسکرا کر پوچھا’’کس طرح؟ احتساب سے؟ ای ووٹنگ سے یا الیکشن پہلے کروا کر؟ ہمارے پاس کوئی جواب نہ تھا۔