کوئی پلکوں پہ لے کر وفا کے دیے دیکھ بیٹھا ہے رستے میں تیرے لئے اپنی مٹھی میں کوئی بھی لمحہ نہیں اور کہنے کو ہم کتنے برسوں جیے ابھی ہی کی بات لگتی ہے کہ ہم رنگ و بو کے موسم میں یونیورسٹی آئے اور اس بات کو لگ بھگ چالیس سال گزر چکے۔ پلکوں پر جگنو اور ستارے چمکتے تھے اور آنکھوں میں کہکشائیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے عملی زندگی میں آ گئے اور اب نوبت باایں جا رسید کہ لمحات تلخی سے بھر گئے۔ اور شام ہوتے ہی اڑ گئے پنچھی۔ وقت جتنا بھی تھا پرایا تھا۔ رومانس کا دورانیہ کب کا گزر چکا یہ عجیب بات کہ حقیقت کے دنوں میں بھی ہم ایک مرتبہ پھر رومانس کا شکار ہوئے جب عمران خان کی صاف گوئی اور ایمانداری نے ہمیں آن لیا کہاں منیر نیازی یاد آئے: آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے ہم نے پھر نجات دہندہ کو آواز دی لب بام بھی پکارا، سرعام بھی صدا دی۔’ میں کہاں کہاں نہ پہنچا تری دید کی لگن میں، سنا تھا کہ خوابوں کا آئینہ چور چور ہوتا ہے تو صدا بھی نہیں آتی۔بس ٹوٹے ہوئے شیشوں کا ڈھیر سا لگ جاتا ہے ڈھیر لگ جائیں گے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے۔ میں بھی کیا ہوں کہ بیان کی رو میں بہہ گیا ہوں اور منظر نامہ بیان کرنے سے گھبراتا ہوں کہ مجھے اپنے آپ سے شرم آتی ہے۔ بات بھی سچ ہے اور بات بھی رسوائی کی۔ مصرع میں تصرف ہے آپ برداشت کریں۔ پھر کیا !ہمارا نیازی یا بے نیازی محبوب کیسے بدلا کہ موسم ایک طرف کھڑے دیکھتے رہ گئے فراز، پیچھے رہ گیا کہ یونہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انسان جاناں۔ اب بات کرتے کرتے میں اچانک نان اور چنے کا ذکر لے بیٹھوں تو آپ یقینا مجھے بے ذوق کہیں گے کہ غالب و ذوق کی باتوں میں بھوجن اور کھانا پینا۔ مگر کیا کریں لوٹ جاتی ہے۔ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے، ہم تو عثمان بزدار کی دھمکی پر خوش تھے کہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ ان نان روٹی بیچنے والوں کو من مرضی نہیں کرنے دیں گے، دوست اس پر مسکرائے تھے اور پوچھنے پر کہا تھا کہ یہ نان چنے بیچنے والے تو وزیر اعظم عمران خاں کو کچھ نہیں سمجھتے یہ بزدار کو کس کھاتے میں رکھیں گے۔ بزدار صاحب تو بہت ہی بے ضرر آدمی ہیں۔ نان چنے والوں نے فیصلہ کیا اور نان 15روپے خمیری روٹی 12روپے اور عام روٹی 8روپے کی ہو گئی۔ مزے کی بات یہ کہ یہ والا نوٹس خان صاحب نے نہیں بلکہ بزدار صاحب نے لیا تھا جب یہ نوٹس لیتے ہیں تو مخالفین اسے پیغام سمجھتے ہیں کسی بھی نوٹس پر کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ اب تنگ آ کر عمران خان کو کہنا پڑا کہ آٹے کی پرانی قیمت بحال کریں۔ ویسے تو ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے اور پھر نان روٹی اب نان سٹاپ ہی سمجھیں۔ بلکہ یہ خدشہ ہے کہ اب نان اور روٹی چھوٹی ہو کر ٹکیوں کی صورت اختیار کر جائے یہ سمارٹ لاک ڈائون کی طرح سمارٹ ہو جائیں گے۔ علاج اس خرابی کا وہی ہے جو وارث شاہ نے ہیر میں بتایا ہے کہ ڈنڈا پیر اے وگڑیاں تگڑیاں دا۔اس کی سنہری اور تاریخی مثال نواب امیر محمد خان ہیں جنہوں نے فلور ملز کے مالکان کو گورنر ہائوس بلایا تھا اور پھر مونچھ کو بل دیا تھا کہ اگر وہ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری سے باز نہ آئے اور آٹا بازار میں نہ آیا تو وہ مونچھوں کی طرح مروڑ کر رکھ دیں گے میں نے ان کی بات کا مفہوم بیان کیا ہے سارے مسائل پلک جھپکتے ہی حل ہو گئے۔ موجودہ حکومت پر کیا کہیں دل چاہتا نہ ہو تو دعا میں اثر کہاں دوا بھی کارگر نہیں ہو گی اصل میں اس جگہ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں۔ ہائے ہائے اب کے بھی ہمیں وہی شعر لکھنا پڑا جو ہمیں پچھلی حکومت کے لکھنا پڑا تھا: دکھ تو یہ ہے اس نے ہی لوٹا ہے ہم کو جس کے لئے گھر بار لٹایا جا سکتا تھا یہ سب کچھ اس کے باوجود بھی چلے گا کہ محکمہ خوراک پنجاب نے فلو ملز کے مالکان کی شرائط مان لی ہیں۔ بیس کلو آٹے کا تھیلا 55روپے مہنگا کر کے 860روپے مقرر ہوا ہے بات بڑی سیدھی ہے کہ کہیں بھی قانون کا اطلاق نظر نہیں آتا۔ چور ڈاکو سارے کے سارے محفوظ ہیں جو دشمن تھے انہیں خود باہر نکال دیا اور جو اپنے بکل کے چور تھے وہ بھی باہر نکل گئے اور پھر غریب کیا کرے۔ پی آئی سے لے کر ریلوے تک ہر محکمہ دگرگوں ہے وزراء میں ار ہٹ دھرمی حد سے زیادہ بڑھی ہوئی۔ کسی میں اخلاقی جرأت نہیں کہ ناکامی پر استعفیٰ ہی دے دے بلکہ وہ ذرا سے نادم بھی نہیں۔ ان کے بلنڈر ایسے کہ ایک بیان نے پوری پی آئی اے ہی کو گرائونڈ کر دیا۔ ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو۔ ہم بگڑ چکے ہیں اور اس قدر بگڑے ہیں کہ قابل اصلاح بھی نہیں رہے۔ خان صاحب کی استدعا یا استفسار میں ایک گہری بے بسی ہے یا پھر تجاہل عارفانہ ہے جب وزیر اعظم کا لہجہ ایسا ہو اور بیان اس نہج کا کہ کوئی مجھے بھی تو بتائو میری زیر نگرانی یا میری ناک کے نیچے ہو کیا رہا ہے۔ اس ضمن میں سب سے دلچسپ بیان اسرار الحق صاحب کا ہے کہ خان کا وہ الہ دین کا چراغ کہاں گیا جس سے تمام مسائل حل ہونا تھے۔ میرا خیال ہے کہ اس چراغ کو رگڑتے ہی مہنگائی کا جن نمودار ہوا یا پھر الہ دین کے چراغ کے کثرت استعمال سے اب اس سے کوئی لاغر سا جن برآمد ہوتا ہے۔ جو خان صاحب کے لئے سبزی وبزی لا سکتا ہے۔ ہاں اگر علامتی بات کی جائے تو جن جنوں کو وہ خاں صاحب لائے تھے وہ جن ثابت نہیں ہو سکے بلکہ وہ تو عام منتظم بھی ثابت نہیں ہوئے۔ انہوں نے خان صاحب کو شرمندہ کروا دیا اور اب یہ صورت حال ہے کہ خان صاحب کسی سے آنکھ بھی نہیں ملاتے اور سب کچھ قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے تبھی تو کبھی کبھی وہ پوچھ لیتے ہیں یہ مہنگائی کون بڑھا رہا ہے ملک کو لوٹنے والوں سے کوئی پوچھتا کیوں نہیں۔ سراج الحق نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر ان پر اعتماد کیا گیا تو وہ ملک صحیح طور پر مدینہ کی فلاحی ریاست بنا کر دکھائیں گے۔ لوگ کدھر جائیں؟ بے ربط کر کے رکھ دیے اس نے حواس بھی جتنا وہ دور لگتا ہے اتنا ہے پاس بھی