سعادت حسن منٹو بھی کیسا سفاک حقیقت نگار تھا کہ اس کا قلم جب بھی بولتا، کفن پھاڑ کے بولتا۔ کسی سے رُو رعایت کرنا تو اُس کے مقدر ہی میں نہیں لکھا تھا۔ ہمارے ہاں بد تمیز اور ہر بات منھ پہ بول دینے والے بچے کی بابت کہا جاتا ہے کہ ’اس کی زبان کا تو ٹانکا ہی ٹوٹا ہوا ہے۔‘ اس حساب سے منٹو کے قلم کی زبان کا تو جانے کیا کیا کچھ ٹوٹا ہوا تھا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ہمارے ہاں جب کوئی بڑا آدمی مر جاتا ہے تو اس کے کردار کو لانڈری میں بھیج کے ڈرائی کلین کروایا جاتا ہے اور پھر ساری عمر کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کی کھونٹی پہ لٹکا دیا جاتا ہے۔‘‘ ویسے بھی ہمارے ہاں مرنے کے بعد ترحم کا جذبہ عود کے آتا ہے۔ ساری عمر ایک دوسرے کو جوتے کی نوک پہ رکھنے والے رشتے دار مرنے کے بعد ایک دوسرے کی میت کو بڑھ چڑھ کے کاندھا دے رہے ہوتے ہیں۔ ایک کے قُلوں کے مکھانے دوسرے کی مرغوب غذا بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ مذہب نے مرنے کے بعد درگزر اور پردہ پوشی ہی کا مشورہ دے رکھا ہے لیکن بعض احباب کا خیال ہے کہ آیندہ کے لیے عبرت پکڑنے کے لیے کچھ باتوں کا تذکرہ کر لینے میں کوئی حرج نہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اللہ میاں نے بھی تو حساب کتاب کا معاملہ مرنے کے بعد ہی رکھا ہوا ہے۔ یوں تو دوستو! شخصیت پرستی اور اندھی عقیدت کے اس دور میں کسی کی خامی کی طرف اشارہ کرنا بھی ’آ بَیل مجھے مار‘ کے مترادف ہے لیکن وہ جو کہتے ہیں کہ آدمی اپنی غلطیوں سے بھی سیکھتا ہے۔ ایسے میں کبھی کبھار کسی دوسرے کی غلطیوں سے سیکھ لینے میں بھی کیا مضائقہ ہے؟ ٍویسے بھی آج ہم نے اپنے موضوع کو لوگوں یا بیگانوں کی تُو تُو مَیں مَیں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی ہی پسندیدہ شخصیات تک محدود رکھا ہے اور نیت بھی چغلی کی نہیں بلکہ محض روایت سے ہٹ کے بعض امور کی جانب توجہ مبذول کروانے کی ہے، شاعرِ مشرق نے بھی تو رعایت لینے کی غرض سے کہا تھا: خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلہ بھی لے انتظار حسین… اُردو فکشن کا ایک بڑا نام … میرے بھی پسندیدہ افسانہ نگار… آپ کے بھی فیورٹ لیکن آئیں آج عقیدت سے بالا بالا مان لیں کہ جہاں ان کے بہت سے افسانے (سارے نہیں) نہایت اعلیٰ پائے کے ہیں، وہاںماننا پڑے گا کہ ان کے ناول ایک عام سطح سے اوپر نہیں اٹھ سکے اور کالم تو محدود سے موضوعات کی بڑی طویل جگالی ہے۔ خود نوشت سوانح، اسلوب و واقعات ، دونوں حوالوں سے اوسط سے بھی نچلے درجے میں جگہ پاتی ہے۔ (یہ میری رائے ہے، خامی اس کے بعد آ رہی ہے) خامی یہ ہے کہ یہ حضرت تمام عمر کلچر کلچر کُوکتے رہے، لیکن لاہور جو دنیا بھر کے کلچروں کا دادا اَبو ہے، انھوں نے سات دہائیاں اس بھرے پُرے شہر کے بیچوں بیچ لوگوں سے ملتے جلتے اور بے شمار محافل میں پردھان بن کے گزاریں ۔ یہاں کے ادبی، عوامی اور سیاسی لوگوں نے بھی ہمیشہ انھیں سر آنکھیں تو رہیں ایک طرف، کہاں کہاں نہیں بٹھایا؟ لیکن ان حضرت نے ہمارے لاہور اور پنجاب کو تمام عمر گھاس تک نہیں ڈالی۔ اس کے کلچر اور زبان کو تو انھوں نے لفٹ ہی نہیں کرائی۔ لاہور نے ان کو پہچان، شہرت، محبت، عزت، گھر، دولت سب کچھ دیا لیکن وہ عمر بھر ڈبائی اور بلند شہر ہی کے گُن گاتے رہے، جہاں شاید ان کو دوسرے محلے والے بھی نہ جان پاتے۔ پنجابی کا ایک جملہ ہم ان کی زبان مبارک سے سننے کو ترس گئے۔ اس عمل کو تعصب کے کس کھاتے میں رکھیں گے؟ ہمارا جاپانی دوست سو یامانے تو دو چار مہینوں ہی میں اُردو کے ساتھ ساتھ پنجابی میں بھی ٹوں ٹاں کرنے لگ گیا تھا۔ ڈاکٹر سہیل احمد خاں… میرے کیا، میرے جیسے سیکڑوں تلامیذِ ادب کے پسندیدہ استاد … شخصیت کا طنطنہ ایسا کہ پہلی ہی ملاقات اور چند ایک دروس کے بعد دل کے ساتھ جانے کہاں کہاں سما جاتے تھے۔ ذاتی زندگی بھی قابلِ رشک… باپ ایک خوشحال پولیس افسر… یونیورسٹی کی کلاس میں محض گولڈ میڈل ہی پہ اکتفا نہیں کی، اپنی پریویس کلاس کے استاد بننے کا طلسماتی شرف اور تصوراتی حظ بھی حاصل ہوا۔ پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ اُردو میں طویل بلند پروازی کے بعد گورنمنٹ کالج میں مزید عروج کی جانب اُڑان بھری۔ بڑی بڑی حسیناؤں کو بھی گِلہ رہا کہ وہ کسی کو آنکھ بھر کے دیکھنے کی لذت سے بھی سرشار نہیں کرتے۔پھر ازدواجی زندگی میں بھی غالب والی ’جس پہ مرتے ہیں اس کو بھی مار رکھتے ہیں‘ والی کامیابیاں سمیٹیں۔ سنتے ہیں کہ جس خاتون کو چاہتے تھے، اس کی کسی اور سے شادی ہو گئی، ملک سے باہر بھی چلی گئی لیکن ان کی محبت میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس انھی کے پہلو میں آن براجی لیکن آخر آخر میں گھریلو زندگی کا اس انداز سے بکھر جانا کہ کئی کئی راتیں گھر سے باہر گزارنا… بقول عظمیٰ مسعود، ایک عامیانہ سے معاشقے میں انتہائی حد تک ملوث یا استعمال ہو جانا بعید از قیاس ہی نہیں بعید از حواس بھی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو… وطنِ عزیز میں قائدِ اعظم کے بعد سیاست کا ایسا عروج شاید ہی کسی نے دیکھا ہو؟… ہر طرف بلّے بلّے، واہ واہ، بڑے بڑے القاب، ہر طرف سے آداب… روٹی، کپڑا، مکان کے چرچے… عظیم جلسوں پہ بھاری خرچے… خارجہ پالیسی کے ماہر، تہتر کے آئین کے مخترع، پہلے ہی الیکشن میں اتنا بھاری مینڈیٹ اٹھا لیا کہ بقولِ میر: کب کسی ناتواں سے اٹھتا ہے لیکن کیا اور کہاں کمی رہ گئی کہ دیکھتے ہی دیکھتے خاندان کا نام و نشان اس حد تک مٹ گیا کہ ہمیں کاٹھ کے بھٹو بنانا پڑ رہے ہیں۔ عقیدت اور سیاست اپنی جگہ لیکن کبھی نہ کبھی ہمیں اس پر بھی عبرت، نصیحت اور حصولِ بصیرت کی خاطر دیکھنا اور سوچنا پڑے گا کہ کیا اس قضیے میں سارا قصور امریکا، جنرل ضیاء ا لحق اور آصف زرداری ہی کا ہے؟لالہ بسمل نے کہا تھا: ایسی عمر گزاری جس میں کسی بھی شے کا کال نہ دیکھا دنیا کو سمجھاتے رہ گئے ، اپنے گھر کا حال نہ دیکھا ابّا جی… جی ہاں! میرے اپنے سگے والد مرحوم۔ ہماری تین سال کی عمر میں کسی عجلت پسند بَلّے باز کی مانند زندگی کی اننگز سے حادثاتی طور پر آؤٹ ہو گئے۔ لوگ خوشخبریاںسناتے ہیں کہ بچپن کی اس یتیمی سے ہمیں بیٹھے بٹھائے ایسی سُنت کا شرف حاصل ہو گیا، جو عموماً پیغمبروں کو نصیب ہوتا ہے… کوئی بھی اس اعزاز کی تمنا نہیں کرتا!!! دوستو! آج کی آخری بات یہ کہ لگتا ہے منٹو کی طرح ہمارے اندر بھی کوئی ایسا کافر آن بسا ہے کہ نہ جلدی مرغوب ہوتا ہے، نہ مرعوب بلکہ انھی عاداتِ بد کی بنا پر ہمیشہ ہر طرف سے معتوب ہوتا ہے۔ اس کے باوجود عرض ہے کہ اس تحریر کا مقصد کسی کا دل دکھانا یا تضحیک کرنا ہر گز نہیں بلکہ شاید کسی حد تک یہ سمجھانا ہے: دنیا جائے عبرت ہے ، اپنا آپ سنبھال کے چل (جاری ہے)