مسلم لیگ(ن)کے صدر ،قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت اور محدود عرصے کیلئے بغرض علاج بیرون ملک جانے کی اجازت ملنے کے باوجود لاہور میں ہی پائے جا رہے ہیں۔میاں صاحب تو اپنی روایتی خوش لباسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کالا سوٹ پہن کر براستہ قطر لندن جانے کیلئے پابہ رکاب تھے لیکن حکومت کے عزائم کچھ اور ہی تھے جن کا اندازہ وزیر اطلاعات فواد چودھری کے فوری ردعمل سے ہو گیا کہ ہم شہباز شریف کو جانے نہیں دیں گے انہیں ہر صورت روکا جائے گا۔دراصل میاں نواز شریف کو بظاہر بغرض علاج لندن جانے کی اجازت ملنے سے حکومت کو جو خفت اٹھانا پڑی اس سے وہ اب تک پوری طرح نبردآزما نہیں ہوسکی۔میاں نواز شریف جن کے بارے میں تمام ذرائع بشمول حکومت کے اپنے قائم کردہ میڈیکل بورڈ ز نزعی حالت سے دوچار تھے لہٰذا ان کا علاج کیلئے لندن جانا لازمی قرار دیا گیااور کہا گیا کہ وہ ائیر ایمبولینس میں لندن جائیں گے لیکن جیسے ہی میاں صاحب قطر ائیر ویز کے خصوصی جہاز پر لاہور سے سوار ہوئے تو خاصے ہشاش بشاش نظر آئے،جہاز کے اندر کی جو تصاویر جاری کی گئیں ان کے مطابق میاں صاحب کے سامنے پھلوں کی ٹوکریاں پڑی تھیں۔گویا کہ حکمرانوں نے محسوس کیا کہ ہمارے ساتھ دھوکہ ہو گیا ہے اور میاں صاحب انہیں جْل دے کر حکومتی دسترس سے دور چلے گئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بقول حکومت میاں شہباز شریف، نواز شریف کی واپسی کے ضامن تھے لیکن نواز شریف نے جب نام نہاد ضمانت کی دھجیاں بکھیر دیں تو اس تناظر میں وزیر اعظم عمران خان کے اس حکم پر عملدرآمد کیا گیا کہ اب شہباز شریف جانے نہ پائیں اور ایسا ہی ہوا۔اس معاملے کے قانونی پہلوئوں پر بحث تو حکومتی اور شہباز شریف کے وکلا کے درمیان ہوتی رہے گی، تاہم اس قضیے کا فیصلہ عید کی طویل چھٹیوں کے بعد ہی ہو گا۔فی الحال تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ شہباز شریف کا کیس بظاہر مضبوط ہے کیونکہ وہ حکومت کو مطلوب ہیں اور نہ ہی ان کا نام کسی بلیک لسٹ میں شامل ہے لہٰذا انہیں بیرون ملک جانے سے باز رکھنے کیلئے ایک نئی لسٹ میں ان کا نام ڈال کر ان کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگائی گئی ہے۔سوائے انا کی تسکین کے میاں شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے کی کوئی خاص وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔اگرچہ شہباز شریف کا اصرار ہے کہ وہ علاج مکمل ہونے کے بعد وطن واپس آ جائیں گے لیکن اگر وہ نہیں بھی آتے تو اس میں حکومت کا کیا نقصان ہے؟،حکومت تو اپنے لئے ’ریلیف‘ہی محسوس کرے گی کہ چلو اپوزیشن کے ایک اور رہنما سے جان چھوٹی۔ بہرحال حکومت بھی کہاں ہار ماننے والی ہے ،وہ ایک بار پھر حدیبیہ پیپر ملز کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی سعی لاحاصل میں لگ گئی ہے۔ وفاقی وزیراطلاعات و نشریات فواد چودھری کا کہنا ہے کہ شہباز شریف کی برطانیہ میں ٹی ٹیز سمیت نئے ثبوت ملے ہیں جس کی بنیاد پر حدیبیہ پیپر ملز کیس کی نئے سرے سے تفتیش شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم عمران خان کو قانونی ٹیم نے شہباز شریف کے مقدمات کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی‘ اور اس سلسلے میں متعلقہ اداروں کو تفتیش نئے سرے سے شروع کرنے کی بدایات دی جارہی ہیں،اس مقدمے میں شہباز شریف اور نواز شریف مرکزی ملزم کی حیثیت رکھتے ہیں۔دوسری طرف ایک اطلاع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف نے عدالتی احکامات کے باوجود بیرونِ ملک جانے سے روکنے پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا عندیہ دیا ہے،وہ پی ٹی آئی حکومت اور ایف آئی اے کے خلاف عید کے بعد توہین عدالت کی درخواست دائر کرینگے۔ یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ آخر شریف فیملی کا قطر سے کیسا انس ہے کہ سب وہاں بھاگے جاتے ہیں۔بڑے میاں صاحب کیلئے خصوصی طیارہ بھی قطر نے بھجوایا تھااور اب شہبا ز شریف بھی براستہ دوحہ ہی لندن جا رہے تھے اور میڈیا کے ایک حلقے کے مطابق انہوں نے قطر کے دارالحکومت میں کسی اہم شخصیت سے ملاقات بھی کرنا تھی۔واضح رہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے دست راست اور متنازعہ شخصیت سیف الرحمان وہاں پر وسیع کاروبار کرتے ہیں۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف جتنا عرصہ وزیراعظم رہے انہوں نے سیف الرحمان کو دور ہی رکھا،قطر کے سرکاری دورے کے موقع پر بھی سیف الرحمان کو سرکاری وفود میں شامل نہیں کیا گیا۔اس کے باوجود میاں فیملی کی قطر میں دلچسپی اور قطر کی ان میں دلچسپی برقرار ہے۔ اگرچہ پاکستان کی سیاسی ایلیٹ کا برطانیہ سے رومانس کسے معلوم نہیں تاہم میاں فیملی کا تعلق اپنے تمام معاصر سیاسی رہنمائوں کو مات دیتا ہے۔میاں نواز شریف جب وزیراعظم تھے ،بیرون ملک دوروں کے موقع پر اکثر آتے جاتے ان کا سٹاپ اوور لندن ہی ہوتا تھا۔انہوں نے زیادہ تر جلاوطنی لندن میں ہی اپنے ایون فیلڈز اپارٹمنٹس میں گزاری۔وہ اکثر اپنی اقامت گاہ کے قریب واقع لندن کے معروف ڈیپارٹمنٹل سٹور کے کیفے میں کافی پیتے اور شاپنگ کرتے پائے جاتے تھے۔پہلے تو لندن والے فلیٹس میں نواز شریف اور شہباز شریف فیملی اکٹھی ہی تھی لیکن بعد ازاں چھوٹے میاں صاحب نے قریب ہی ایجورڈ روڈ پر اپنا سیٹ اپ الگ بنا لیا۔ شہباز شریف نے پرویز مشرف دور میں جلا وطنی کے دوران بھی کئی ماہ لندن میں گزارے۔اگرچہ فراغت کے اس ماحول میں ان کے پاس لندن میں کوئی کام نہیں ہوتا تھا،انہیں جو مرض لاحق ہے اس کا علاج اور سرجری بھی نیویارک میں ہوتی رہی۔اس پس منظر میں یہ خبر کہ وہ لندن میں قیام کے دوران بڑے بھائی سے سیاسی صلاح مشورے کریں گے اتنا قرین قیاس نہیں ہے۔شہباز شریف پرواسٹیبلشمنٹ پالیسی کے باوجوداپنے بڑے بھائی سے جو اس بارے میں خاصے کلیئر ہیں کہ فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ہونا چاہئے، نہ صرف پارٹی ڈسپلن بلکہ خاندانی روایات کے مطابق بڑے بھائی کے بھی پابند ہیں لہٰذا مسلم لیگ (ن) آئندہ کیلئے کیا سیاسی لائن لے گی اس پر بڑے میاں صاحب سے زیادہ بحث مباحثے کی گنجائش موجود نہیں۔