زندگی بڑی تیزی اور روانی کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ صبر ایک ایسی چیز ہے کہ جس نے بھی صبر اختیار کیا وہ فلاح پا گیا۔ صبر اختیار کر نا اور پھر اِن پر عمل کرنا ہمیشہ بڑے لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔ صبر ہی کی ایک قسم برداشت ہے جس سے آج ہمارا معاشرہ بہت دور ہو چکا ہے ۔ برداشت نہ ہونے کی وجہ سے ہر جگہ فساد برپا ہے جس سے معاشرے میں تباہی اور بربادی پھیل رہی ہے یہ تمام صفات اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو عطا کرتا ہے جو اپنے من اور تن میں اللہ اور اس کے پاک رسول ﷺ کی سچی محبت رکھتے ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں بر صغیر میں اسلام کو پھیلانے میں جہاں پر صحابہ کرام ؓ کی محبت شامل ہے تو جہاں پر صوفیا ء کرام بھی دراصل حضور اقدس ﷺاور صحابہ کرام کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دین کی تبلیغ کافریضہ سر انجام دیتے ہیں ۔ کیونکہ جب تک دلوں میں حضور اقدس ﷺ کی محبت اور عقیدت شامل نہیں ہو گی تو آپ کی تبلیغ بھی بے اثر رہے گی حضرت علامہ اقبال نے خوب صورت الفاظ کے ذریعے حضور اقدس ﷺ کو خراج تحسین پیش کیا ہے : ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم نہ بھی ہو چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو جو بھی آپ ﷺ کے ساتھ سچا پیار کرئے گا وہی کامیاب ہو گا اور چمن میں بہار آئے گی ۔ ویسے تو تمام صوفیا کا اپنا ایک انداز ہوتا ہے کہ جس کے ذریعے وہ مخلوق خدا میں عشق الہٰی کا جذبہ پیدا کر کے اُسے اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں شناسا کراتے ہیں لیکن ہمارے وسیب کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کا عشق اور راز نیاز کا سلسلہ بہت من موہنا اور خوب صورت ہے۔ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ اپنے وقت کے نہ صرف شاعر صفت زباں تھے بلکہ ا ُنہوں نے اپنے آپ کو اللہ اور اُس کے محبوب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی محبت میں بھی فدا کیا ہوا تھا۔ روہی ، تھل ، دامان ، سسی ، پنوں ، بلوچ ، رانجھا ، کھیرڑے یہ سب محبت اور عشق کے استعارے ہیں۔ جو ایک اہل علم اور اہل عشق ہی سمجھ سکتا ہے سسی اور پنوں خان ہوت بلوچ کا عشق جو تاریخ سے ثابت ہے ۔لیکن اِس عشق مجازی کو حضرت خواجہ غلام فرید اپنے خوب صورت انداز سے عشق حقیقی کی طرف لے جاتے ہیں گو کہ بیان میں وہی عشق مجازی کے قصے شامل ہوتے ہیں لیکن معرفت میں عشق حقیقی ہی ہوتا ہے۔ پنوں خان ہوت خان کا بیٹا تھا جو کیچ مکران کے حکمران تھے۔ پنوں خان کسی کام کی غرض سے بھنبھور آیا اور یہاں آکر سسی جو ایک ہندو راجہ کی بیٹی تھی جس کو نجومیوں نے بتایا کہ یہ لڑکی ایک بلوچ کے ساتھ عشق کرئے گی ۔ جس سے آپ کی بد نامی ہو گی جس پر راجہ نے اپنی بیٹی کو ایک صندوق میں بند کر کے دریا میں چھوڑ دیا۔ یہ صندوق ایک دھوبی کے ہاتھ لگا جس نے بعد میں سسی کی پروش کی۔ اس لیے سسی دھوبی کی بیٹی مشہور گئی پنوں خان کی محبت میں یہ دیوانی ہو گئی لیکن ہوت خان نے اپنے بڑے بھائی لاشار خان سے مدد طلب کر کے بھنبھور سے پنوں خان کو زبردستی اپنے پاس بلایا ہوت بلوچوں اور لاشاریوں نے پنوں خان اورا ُس کے ساتھیوں کو زبردستی اونٹوں پر باندھ کر واپس کیچ مکران لے آئے اسی عشق کو لے کر حضرت خواجہ غلام فرید ؒ روہی میں جا بیٹھے اور اپنے محبوب حقیقی کی یاد میں واحدت وجود کے قائل تھے ۔ واحدت وجود ظہور الہٰی کا نظارہ ہوتا ہے اور وہ ہر چیز میں اُس کی قدرت کا نظارہ کر تے ہیں ۔ اس لیے تو حضرت خواجہ غلام فریدؒ فرماتے ہیں کہ : ہے عشق دا جلوہ ہر ہر جا سبحان اللہ سبحان اللہ خود عاشق نے خود معشوق بنڑا سبحان اللہ سبحان اللہ اور پھر سسی کی زبانی یوں بھی فریاد کرتے نظر آتے ہیں کہ : میں تا کیچ دی ملکہ تھیسا جدا پر نیسا اڑی بہنامیکوں کیچ کالوں نہ روکوں میں ونجڑا کیچ ضرور حضرت خواجہ غلام فرید ؒ بڑے رحم دل اور احترام انسانیت کرنے والے تھے۔ نواب بہاول پور نواب صادق خان عباسی آپ کا بڑا عقیدت مند تھا اور آپ سے بڑی محبت کیا کرتا تھا۔ نواب صادق خان نے آپ کی جائے پیدائش چاچڑاںشریف میں آپ کے لیے ایک بہت ہی خوب صورت محل بھی بنوایا تھا آپ کا مزار بھی کوٹ مٹھن شریف میں عباسی نواب نے ہی بنوایا تھا ۔ وہ کبھی کبھی آپ کو ملنے کے لیے کوٹ مٹھن بھی آیا کرتا تھا ایک بہت ہی مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص حضرت خواجہ غلام فرید کے پاس اپنی ایک عرضی لے کر آیا اور نواب صادق خان عباسی کی شکایت کی تو آپ نے ایک مختصر خط نواب صاحب کو لکھا کہ صادق ’’زیر تھی زبر نہ تھی بھنوے پیش آوئی ‘‘ اے نواب صادق ہمیشہ عاجزی سے رہا کر کسی پر ظلم نہ کیا کر کیا پتہ وہ ظلم تمہیں پیش آجائے بس پھر کیا تھا نواب صاحب نے جب یہ تاریخی جملے پڑھے تو زارو قطار رونا شروع کر دیا اورا ُس وقت اُس شخص کا کام کر دیا۔ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کا سالانہ عرس بھی گزشتہ دنوں منایا گیا ہر سال اُن کے عرس میں ہزاروں لوگ شرکت کرتے ہیں ۔کوٹ مٹھن محبتوں اور عقیدتوں کی جگہ ہے ۔ جہاں پر حضرت خواجہ غلام فرید اپنے مرشد اور بھائی حضرت خواجہ فخر جہاں اور اپنے والد گرامی حضرت خدا بخش کو ریجہ کے ساتھ آرام فرما رہے ہیں ۔ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کا فیض آج بھی جاری ہے آپ نے مختصر سی زندگی میں صرف 58 سال اِ س فانی جہان میں بسر کیے اور شوگر کے مرض میں مبتلا ہو کر اِسی جہان فانی سے کوچ کر گئے اولیا اللہ اورصوفیاء کرام آپ کے آستانے پر حاضری دیتے رہے ہیں۔ حضرت خواجہ غلام فرید میں ویسے تو ہزاروں خوبیاں تھیں لیکن اُن کی سب سے بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ انسانیت کے ساتھ بلا تفریق محبت کرتے تھے جبکہ سادگی کا پیکر اور سخاوت کا دریا تھے ۔اس لیے لوگ آج بھی اُن کے ساتھ عشق کرتے ہیں : جے یار فرید قبول کریں سرکار دی توں سلطان وی تو ں نہ تے کہتر ، کمتر ، ادنا لا امکان وی تو ں