نماز، جو کلمہ طیبہ نصیب ہونے کے بعد دینِ اسلام کا سب سے اہم رُکن اور فریضہ ہے۔ نماز جسے دین کا ستون کہا گیا، نماز جسے دل کا سکون کہا گیا۔ نماز جو برائی اور بے حیائی میں انسان کی محافظ ہے۔ جاننے والے جانتے ہوں گے کہ جب شاعرِ مشرق کو مسجدِ قرطبہ کہ جہاں سات سو سال تک اذان اور قرآن کی آواز گونجتی رہی، کی زیارت کا موقع ملا تو وہاں اس وقت گھنٹیوں کی صدائیں اور صلیبوں کی ادائیں راج کر رہی تھیں۔ اقبال کے دل میں شدید خواہش جاگی کہ وہ وہاں نماز ادا کریں، جس کی وہاں اجازت نہ تھی۔ پروفیسر آرنلڈ کی کوشش سے کچھ گنجائش پیدا ہوئی تو برِ عظیم میں قرآن اور اسلام کے اس سچے اور کھرے محب نے وہاں نہ صرف پورے جذبے کے ساتھ اذان دی بلکہ پورے خضوع و خشوع کے ساتھ دو رکعت نماز ادا کی اور پھر آنسوؤں کی روشنائی اور عجز کے قلم کے ساتھ، عقیدت کی لوح پہ وہ دل گداز دعا رقم کی، جس کا مطلع ہے: ہے یہی میری نماز ، ہے یہی میرا وضو مِری نواؤں میں ہے ، میرے جگر کا لہو نماز ، جو ہر مسلمان پہ ایک دن میں پانچ وقت فرض کی گئی، نماز جو وقت کی پابندی اور صفائی کا سلیقہ سکھاتی ہے۔ نماز جو اسلام اور کفر کے درمیان سب سے بڑا فرق ہے۔ نماز کہ جس کے دورانیے میں قادرِ مطلق سے براہِ راست رابطے کا وائی فائی بغیر کسی انٹرپشن کے آن ہوتا ہے۔ نماز جو ایک بھیک ہے، نماز جو ایک بھیگ ہے، نماز جو ایک حاضری ہے، نماز جو ایک عجز ہے، نماز جو ایک پیشی ہے، نماز جو سراپا دعا ہے، نماز جو اس کائنات کی سب سے خوب صورت ادا ہے۔ نماز جو ایک نشہ ہے۔ ہم بد قسمتوں نے اسے بھی معمول کے ہر کام کی طرح روا روی میں نمٹا دیا۔ قرآن کے بار بار مطالعے کے بعد مجھے باری تعالیٰ سے مدد مانگنے کا جو سب سے احسن طریقہ نظر آیا، وہ ہے: واستعینو بالصبر والصلوۃ، یعنی مجھ سے مدد مانگو، صبر اور نما ز کے ساتھ! یہ حقیقت ہے کہ نماز کااصل حق اس وقت ادا ہوگا، جب اسے ثواب کی بجائے سواد کے لیے پڑا جائے گا۔ لفظ ’عبادت‘ سے بندگی کی ’ب‘ نکل جائے تو پیچھے عادت ہی عادت رہ جاتی ہے، جو ہم اپنے اپنے طور پر تمام عمر پوری کیے جا تے ہیں۔ ہماری اذان میں روحِ بلالی ؓ نہیں، نماز میں جذبۂ شبیری ؓ باقی نہیں، کیونکہ ہم نے کبھی نماز کے مقصد و مفہوم پہ غور کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ تھوڑا سا بھی تأمل کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ سورہ فاتحہ اس کا سب سے اہم جزو ہے، جس کے بغیر نماز مکمل ہی نہیں ہوتی۔ سورہ فاتحہ جسے قرآن کا دیباچہ، تعارف، خلاصہ، نچوڑ کہا جاتا ہے۔ سات آیات پر مشتمل اس سورہ پہ غور کریں تو پہلی تین آیات نہ صرف ربِ کائنات کی تعریف و توصیف پر مبنی ہیں بلکہ ان میں ہم اپنے اعتقاد کا اعادہ بھی کر رہے ہیں… جملہ تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے، رحمن اور رحیم ہے، حساب کتاب کے دن کا مالک ہے۔ یہ تسلیم کر لینے کے بعد ہم اسی رب سے ایک وعدہ، ایک معاہدہ کرتے ہیں کہ ’’ایاک نعبد وایاک نستعین۔‘‘ یعنی اے رحمن، اے رحیم، اے تمام جہانوں کے رازق! ہم تیرے حضور عجز و انکسار کے عالم میں کھڑے ہو کر دل و جان سے عہد کرتے ہیں کہ ہم زندگی بھر صرف صرف صرف تیری عبادت کریں گے اور ہر معاملے میں صرف صرف صرف تجھی سے مدد مانگیں گے!!! اگر کہا جائے کہ کل چار حروف پر مشتمل یہ آیت، عبادت کا رَس، دین کا شعور اور زندگی کا منشورہے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ وعدہ، یہ کومٹ منٹ، یہ اقرار کرنے کے بعد دعائیں ہی دعائیں ہیں، جو اِس معاہدہ پہ مِن و عَن عمل نہ کرنے کی صورت میں بے اثر رہتی ہیں۔ اس تہیے کا اعادہ ہم ہر رکعت میں کرتے ہیں۔ ایک نماز کے بعد دوسری کا مقصد ہی یہ ہے کہ ہم دوبارہ اللہ کے حضور جا کے اپنے وعدے کی تجدید سے باری تعالیٰ کی تائید حاصل کریں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم نے زندگی کے دیگر معاملات کی طرح دعاؤں کے اس گل دستے (نماز) پہ بھی کبھی غور ہی نہیں کیا۔ اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہمیں علم ہی نہیں کہ ہم کائنات کی سب سے بڑی ہستی کے حضور ہاتھ باندھ کے کون کون سے وعدے، ارادے، معاہدے کر آئے ہیں۔ اس کے بعد نہ جانے ہم کس کس نفسانی بت کی پوجا کرتے ہیں اور کس کس غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ حیرت اس بات پہ ہے کہ اللہ سے بد عہدی کی صورت میںہم نماز کی اصل روح سے تو گزر جاتے ہیں، جاں سے کیوں نہیں گزر جاتے؟بے حسی کی حد تو یہ ہے کہ ہمیں اپنی اس وعدہ خلافی پر ذرا سا جھٹکا بھی نہیں لگتا؟ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم نے بچپن میں نماز کو رٹّا تو لگا لیا لیکن کبھی اس کے معنی سمجھنے کی توفیق ہی نہیں ہو ئی، نہ ذمہ داران کو نماز کے فروعی مسائل سے فرصت ملی۔ اگر ہم اسی نماز کو دنیاوی نکتہ نظر سے بھی دیکھیں تو کیسا بنا بنایا اور قابلِ رشک ٹائم ٹیبل ہے۔ اِس زمانے میں جب پوری دنیا توانائی کے فقدان سے بچنے کے لیے دن کی روشنی کے بہتر استعمال کے لیے طرح طرح کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہے۔ ہمیں چودہ سو سال قبل زندگی کی مصروفیات کاایک دائمی گوشوارہ عطا کر دیا گیا کہ فجر سے ظہر تک روشن دن کی معیت میں اپنی دفتری، تعلیمی، زرعی، کاروباری مصروفیات نمٹا لیں۔ ظہر سے عصر تک قیلولے اور استراحت کے لیے بہترین وقت ہے۔ عصر سے عشا تک کے وقت کو اپنی فیملی، تفریح، شاپنگ، ذاتی مشاغل، دوستوں، رشتے داروں سے میل ملاقات لیے پلاننگ کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے اور پھر عشا سے فجر تک بے غِل و غش زندگی اور تازگی بخش نیند کا جہان آباد کیا جا سکتا ہے۔ آج اگر ہم نے نماز کی روح کو سمجھا ہوتا تو یقینا دنیا کی امامت کا فریضہ ادا کر رہے ہوتے۔ اگر نماز کے اوقات کی حسنِ ترتیب پہ نظر رکھی ہوتی تو کائنات کا دل ہمارے اشارۂ ابرو کے ساتھ دھڑکتا لیکن ہم نے تو مسجدیں مدرسے اپنی فرقہ بازیوں کو پالنے کے لیے وقف کر رکھے ہیں۔ علامہ اقبال کے اقربا بتاتے ہیں کہ وہ قرآن پڑھتے تو اس تأسف کی بنا پر آنکھوں سے آنسوؤں کی ندیاں رواں ہو جاتیں کہ اس قوم کے پاس کتنا خوبصورت ضابطہ ٔ حیات ہے لیکن یہ اس کو سمجھنے اور برتنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسا اس لیے تھا کہ وہ قرآن کے مفہوم کو سمجھتے تھے۔ آج ہمارے دینی زعما کو اپنی سیاسی، مالی، سازشی چال بازیوں اور دنیاوی عیاشیوں ہی سے فرصت نہیں۔ خطبوں میں نوافل و صدقات کے عوض ہزاروں میل پر پھیلے گھروں کا لالچ دیا جاتا ہے، چھوٹے گھروں میں محبت اور ایثارکے ساتھ رہنے کا قرینہ نہیں سکھایا جاتا۔ نماز اور قرآن کا مفہوم نہیں سمجھایا جاتا۔اقبال نے ہماری انھی بے روح نمازوں کی صورتِ حال بھانپ کر اُمت کو یہ مشورہ دیا تھا: تیرا امام بے حضور ، تیری نماز بے سرور ایسی نماز سے گزر ، ایسے امام سے گزر