ترجمہ و تلخیص: محمد اختر

 

تنقید نگار سیبال چٹرجی نے فلم کومکمل طورپر مسترد کردیا اور کہا کہ فلم میں بات نہیں بنی۔انہوں نے لکھا ،’’فلم کا کوئی بیانیہ تھا نہ کوئی نفسیاتی حقیقت نگاری ۔فلم میں بے کار فرسودہ گانے اور رقص فضول میں شامل کیا گیا تھا۔یہ فلم دیکھنا تین گھنٹے کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اگر بالی وڈ کا مستقبل اس قسم کاسینما بننے جارہاہے تو برائے مہربانی کوئی مجھے چاندکا ٹکٹ دے ۔ میں یہاں سے چلتا ہوں۔‘‘

فلمی صحافی سبھاش کے جھا کہتے ہیں کہ ’’کرش ‘‘میں پریا کے کردار کی پیشکش پہلے ایشوریہ رائے کو کی گئی تھی۔وہ کہتے ہیں،’’ایشوریہ رائے ’’کرش ‘‘کے لیے لگ بھگ فائنل ہوچکی تھی۔یہاں تک کہ ڈیٹس اور معاوضہ بھی طے ہوچکا تھا۔جس رات اسے یونٹ کے ساتھ بنکاک روانہ ہونا تھا ، اس سے قبل اسے مطلع کیا گیا کہ اسے بنکاک جانے کی ضرورت نہیں۔فلم پریانکا کررہی ہے۔’’کرش‘‘سے پہلے ’’بلف ماسٹر ‘‘میں بھی ایسا ہوچکا تھا اور یقینا ایسا ہونے سے پریانکا اور ایشوریہ کے درمیان رقابت بڑھی ہوگی۔’’کرش ‘‘میں پریا نکا کے کردار کو نوٹس کیا گیاتاہم ریڈف ڈاٹ کام کے مطابق پریانکا اپنے کردار کے ساتھ جدوجہد کرتی دکھائی دی اور بے چاری کوبہت مشکل رول دیا گیا۔

سات سال بعد راکیش روشن بالی وڈ کی روایت کے حامل سپر ہیروکو لے کر ’’کرش 3 ‘‘کے ساتھ دوبارہ لوٹے۔فلم باکس آفس پر بخوبی کامیاب ہوئی تاہم جہاں تک سپیشل ایفیکٹس اور بیانیے کی بات ہے اور جس طرح اس میں ہالی وڈ کے متعدد سپرہیروز کی نقل کی گئی تو اس معاملے میں یہ فلم بالکل ناکام رہی ۔نقادوں نے ’’کرش3‘‘ کو ’’کرش ‘‘سے بھی زیادہ ناپسند کیا۔فرسٹ پوسٹ ڈاٹ کام کے نقاد اس بارے میں لکھتے ہیں ،’’تکلیف دہ ڈھائی گھنٹوں کی یہ فلم بڑے بھونڈے اندا زکی پیش کش نکلی جس میں ایکشن کے مناظر اور کمپیوٹر گرافکس  مایوس کن تھے اور کہانی میں بھی کوئی جان نہ تھی جبکہ اس میں ہالی وڈ کی کھلے عام اور شرمناک نقالی کی گئی ۔ ‘‘ریڈف ڈاٹ کام نے فلم میں پریانکا کے کردار جو اس بار بھی کرش کی بیوی کا تھا ، کوہر ممکنہ حد تک احمقانہ قرار دیا۔

’’کرش 3 ‘‘اور پیشہ ورانہ رقابت 

’’کرش 3‘‘کی ریلیز ایک بار پھر اسی طرح کی رقابت سامنے لے کر آئی جیسی پریانکا چوپڑا کی 2008کی فلم ’’فیشن ‘‘لے کرآئی تھی۔’’کرش3 ‘‘ کی ریلیز سے پہلے پریانکا چوپڑا نے متعدد انٹرویو ز میں کہا کہ وہ فلم میں مرکزی کردار ادا کررہی ہے جبکہ کنگنا رناوت کا کردار محض معاون اداکارہ کا ہے۔پریس ٹرسٹ آف انڈیا کی ایک سٹوری کے مطابق پریانکا چوپڑا نے اس بات پر زور دیا کہ وہ فلم انڈسٹری میں سپیس شیئر کرنے کے حوالے سے کبھی عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوئیں۔فلم ’’دی ہیرو ، لوسٹوری آف آ سپائی ‘‘ اور ’’انداز ‘‘ میں وہ آدھی فلم گذرجانے کے بعد سکرین پر آئی۔تاہم وہ یہ اصرار بھی کرتی ہے کہ ’’کرش 3‘‘ میں وہ یقینی طورپر مرکزی اداکارہ تھی۔وہ کہتی ہے’’میں فلم کی ہیروئن ہوں اور ریتک کی بیوی کا کردار کررہی ہوں ، یہی کافی ہے۔‘‘

تاہم متعدد تنقید نگا روں کا کہنا تھا کہ فلم میں کنگنارناوت کا ولن کا کردار پریانکا کی شخصیت کے مقابلے کہیں زیادہ زاویے رکھتا ہے۔اس کارول یقینی طورپر پریانکا کے رول کے مقابلے میں زیادہ مشکل ہے۔’’انڈیا ٹوڈے ‘‘میں ایک سٹوری میں دونوں مرکزی اداکارائوں کے کرداروں میں فرق پر روشنی ڈالی گئی۔’’فلم میں مرکزی اداکارہ کے لیے کرنے کو کچھ نہ تھا سوائے یہ کہ سپرہیرواس کی جان بچائے ۔دوسری طرف کنگنا کا کردار محض اپنے حسن کے جلوے بکھیرنے سے بڑھ کر تھا۔اس نے ایک میوٹینٹ کا کردار کیا اوراپنے اندر موجود اداکارہ کو بھرپور انداز میں پرفارم کرنے کا موقع دیا۔اس نے اپنے کردار کو نہایت صفائی سے کسی کوشش کے بغیر خوبصورت بنایااور وہ پوری فلم میں چھائی رہی۔کنگنا نے اپنے کردار میں جان ڈال دی۔‘‘

’’فیشن‘‘

پریانکا اور کنگنا پہلی بار جس فلم میں اکٹھے نظرآئیں وہ مدھر بھنڈارکر کی ’’فیشن ‘‘تھی۔ مدھر بھنڈارکر ’چاندنی بار‘‘(2001)،’’پیج تھری ‘‘(2005) اور ’’ٹریفک سگنل ‘‘(2007) جیسی فلموں کے ڈائریکٹر ہیں اور نیشنل فلم ایوارڈ جیت چکے ہیں۔’’فیشن ‘‘میں انڈیا کی بڑھتی اور تیزی سے پھلتی پھولتی ماڈلنگ اور فیشن انڈسٹری کے گھنائونے رازوں کو پردہ سکرین پر پیش کیا گیا ہے۔انڈیا میں جیسے جیسے مڈل کلاس اور اپر مڈل کلاس کی تعداد میں اضافہ ہوا اوران کی قوت خرید بڑھی ، ویسے ویسے ان کی جانب سے اشیائے تعیش کی خریداری بھی روزبروز بڑھتی چلی گئی۔اس کے ساتھ کپڑے کی انڈسٹری اور ہائی اینڈ فیشن انڈسٹری بھی وسعت اختیار کرگئی۔جب فیشن شو زاور مقابلہ حسن ٹیلی وژن پر دکھائے جانے لگے تو اس سے چھوٹے شہروں کی لڑکیوں کی ا یک ایسی کلاس پیدا ہوئی جو گلیمر اور فلموں کی دنیا میں داخل ہوکر شہرت حاصل کرنے کے خواب دیکھتی تھیں۔پریانکانے فلم میں ایک چھوٹے شہر کی لڑکی کا کردار ادا کیا ہے جو کہ بریلی کی یہ لڑکی بذات خود بھی ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ ’’فیشن ‘‘میں اس کے کردار میگھنا ماتھر کو اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیے ممبئی منتقل ہونے کے لیے اپنے والدین سے لڑنا پڑتا ہے جبکہ حقیقی زندگی میں پریانکا چوپڑا کے والدین اپنی بیٹی کے ماڈلنگ اور فیشن انڈسٹری اور حتمی طورپر فلم انڈسٹری میں داخل ہونے سے بہت خوش تھے۔ 

واضح طورپر فلم ’’فیشن ‘‘میں پریانکاکا کردار مرکزی نوعیت کا ہے تاہم کنگنا نے بھی ایک دلچسپ معاون کردار کیا ہے جو کہ ایک ایسی ماڈل ہے جو نشے کی لت میں گرفتار ہوجاتی ہے اور بربادی کے راستے پر چل نکلتی ہے۔دونوں اداکارائوں کو اس فلم پر نیشنل فلم ایوارڈز سے نوازا گیا۔پریانکا کو بہترین اداکارہ کا اور کنگنا رناوت کو بہترین معاون اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا۔تاہم میڈیا نے ان کی رقابت کو ایک بڑی خبر بنانے کی کوشش کی۔اس قسم کی رپورٹوں کا جواب دیتے ہوئے کنگنا رناوت نے فلم کی شوٹنگ شروع ہونے سے بھی پہلے فلمی صحافی سبھاش کے جھا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ،’’انوراگ باسو کی ’’لائف ان آ میٹرو‘‘ کے سوامیری زیادہ تر فلموں میں میں واحد ہیروئن ہوں اور فلم کی کہانی میرے گرد ہی گھومتی ہے۔ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ میں کسی دوسری اداکارہ کے ساتھ کام کررہی ہوں۔میں اس حوالے سے عدم تحفظ کا شکار نہیں۔بھلا ایسا کیوں ہوگا؟میری اور پریانکا کی شخصیت میں بہت فرق ہے اور یہی و جہ ہے کہ مدھر بھنڈارکر نے ہمیں دو مختلف کرداروں کے لیے سائن کیا ہے۔‘‘ 

جب سبھاش کے جھا نے اس بات کی نشاندہی کی کہ پریانکا چوپڑا کو جب بھی کسی دوسری اداکارہ جیسے کرینہ کپور اور لارا دتہ ، کے مقابل کاسٹ کیا گیا تو اس نے طاقت ور پرفارمنس دی تو کنگنا نے کہا ،’’اچھی بات ہے ۔یہ ایک صحت مند مقابلہ ہوگا۔ہم فلم میں اپنی بھرپور پرفارمنس دیں گے۔ ایک فلم کو کبڈی میچ نہیں ہوناچا ہیے۔‘‘

بات کابتنگڑ 

مدھر بھنڈارکر اس رقابت کے حوالے سے اخباری رپورٹوں کو یاد کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اس معاملے میں محض بات کا بتنگڑ بنایا گیا۔’’یہاں بعض ایسے لوگ ہیں جو محض اپنی سپیس چاہتے ہیں ۔ اس کایہ مطلب نہیں کہ وہ مدمزاج ہیں۔لوگو ں نے تودراڑ ڈالنے کی کوشش کی لیکن ایسی مشکل کبھی پیدا نہیں ہوئی۔وہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہت مہربان تھیں۔پریانکا بڑی معتدل مزاج ہے۔ ‘‘مدھر نے مزید بتایا کہ جب ان کے ذہن میں ’’فیشن ‘‘کا خیال پیدا ہوا تو وہ مرکزی کردار کے لیے صرف اور صرف پریانکاچوپڑا کے بارے میں ہی سوچ پائے۔فلم ’’فیشن ‘‘کرنے سے پہلے پریانکا کی کئی فلمیں فلاپ ہوچکی تھیں جن میں ’’بگ برادر ‘‘(2007)،’’دی لیجنڈ آف درونا‘‘(2008)،’’چمکو ‘‘(2008) اور ’’لوسٹوری 2050‘‘(2008)شامل ہیں۔ان میں سے زیادہ تر فلمیں ابھی ریلیز نہیں ہوئی تھیں جب پنجم گوا کے تاج محل ہوٹل کی لابی میں مدھر بھنڈارکر دوڑتے ہوئے پریانکا کے پاس آئے ۔پریانکا اور مدھردونوں وہاں پر منعقدہ انٹرنیشنل فلم فیسٹول آف انڈیا کے سلسلے میں مہمان اور وفد کی حیثیت سے شریک تھے۔فیسٹول کے انڈین پینوراما سیکشن میں مدھر کی فلم ’’کارپوریٹ ‘‘(2006) دکھائی جارہی تھی۔

’’فیشن ‘‘کی کاسٹ

مدھر بھنڈارکر بتاتے ہیں ،’’میری اس کے ساتھ کچھ اور تقریبات میں مختصر ملاقاتیں ہوئیں۔میں نے اسے ہیلو کہا اور پھر اسے بتایا کہ میرے پاس اس کے لیے کچھ ہے۔میں نے اسے کہا کہ میں فیشن کی دنیا پر ایک فلم بنانا چاہتا ہوں۔‘‘اس پر پریانکا کے منہ سے جو پہلی بات نکلی وہ یہ تھی ،’’اوہ ،تواب آپ انہیں ٹارگٹ کرنے جارہے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ ’’چاندنی بار ‘‘،’’پیج تھری ‘‘ اور ’’کارپوریٹ ‘‘جیسی فلمیں بنانے کے بعد لوگوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ مدھر ہمیشہ معاشرے کے کسی نہ کسی حصے کو ٹارگٹ کرتا ہے۔‘‘دوماہ بعد دونوں ممبئی میں دوبارہ ملے۔سکرپٹ تیار تھا اور پریانکا خود کو میگھنا کے کردار سے جڑا ہوا محسوس کررہی تھی۔مدھر فلم کو تاریخ وار ترتیب کے مطابق فلمبند کررہے تھے۔مدھر بتاتے ہیں ،’’جس وقت ہم شوٹنگ کررہے تھے تو میں چاہتا تھا کہ کردار پھلیں پھولیں۔پریانکا اس گراف کو سمجھ چکی تھی جس کا میں تعاقب کررہا تھا۔‘‘

فلم میں پریانکا کا محبوب ایک نوآموز ارجن باجوہ تھا جو ایک خوش شکل اداکار تھا اوراس سے پہلے کچھ تیلگو فلمو ں میں کام کرچکا تھا تاہم ہندی سینما میں اس نے کوئی قابل زکر کردار نہیں کیا تھا۔بھنڈارکر نے مزید بتایا کہ جب انہوں نے مرکزی کردار کے لیے پریانکا کو کاسٹ کرلیا اور چونکہ یہ ایک ایسی فلم تھی جس میں ایک خاتون کی کہانی بیان کی گئی ہے ، اس لیے انہیں یقین تھا کہ مرکزی دھارے کا کوئی بھی بڑا اداکار فلم میں کام کے لیے تیار نہ ہوگا۔ مدھر بھنڈارکر کے بقول اداکاروں کے اپنے اپنے تحفظات ہوتے ہیں ۔ کوئی بھی بڑا اداکار ایسی فلم میں کام نہیں کرنا چاہتا جس میں عورت کاکردار کہانی پر حاوی ہوچنانچہ انہوں نے کوئی بڑا اداکار لینے کی کوشش ہی نہیں کی۔

’’فیشن ‘‘ پریانکا چوپڑا کے کیرئیر میں ایک ا ہم فلم بنی۔نقاد راجیو مساند لکھتے ہیں کہ فلم بتاتی ہے کہ مدھربھنڈارکر حقیقت کو کس طرح دیکھتے ہیں۔پریانکا کے کردارکے بارے میں وہ لکھتے ہیں ،’’پریانکاچوپڑا نے فلم میں شاندار پرفارمنس دکھائی جو کہ بلاشبہ اس کی بہترین پرفارمنس کہلائے گی۔‘‘ ریڈف ڈاٹ کام کے نقاد بھی پریانکا کے کردار سے متاثر اور حیران پائے گئے اور انہوں نے لکھا ،’’اب یا تو پریانکاچوپڑا نئی چالاکیاں سیکھ چکی ہے یا وہ خود بھی میگھنا ماتھر ہی ہے جس نے بالاآخر سکرین پر اپنے آپ کو ہی پیش کیا۔میرا شبہ ہے کہ سچائی درمیان میں کہیں ہے۔‘‘فلم نے نیشنل فلم ایوارڈ بھی جیتا جو کہ پریانکا چوپڑا کے لیے ایک اور تحفہ تھا۔

’’دوستانہ‘‘ کی پروڈکشن

سال 2008 کاآغاز اگرچہ مایوس کن تھا تاہم اس کا اختتام پریانکا چوپڑا کی ایک اور اہم فلم سے ہوا۔یہ ایک دیرپا تاثر چھوڑنے والی فلم تھی بالخصوص اپنے مقبول گانوں اورکامک ٹائمنگ کے حوالے سے یہ بہترین فلم تھی۔ ’’فیشن ‘‘کی ریلیز کے چند ہفتوں بعد پریانکا چوپڑا کرن جوہر کی پروڈکشن کی ’’دوستانہ ‘‘کے ساتھ پردہ سیمیں پر واپس لوٹی جس کے ہدایت کار ترن منسکھانی تھے۔فلم میں پریانکا نے ایک بار پھرگلیمرس رول کیا تاہم اس مرتبہ انہیں ایک فائدہ حاصل تھا۔اس حقیقت کے ساتھ کہ یہ فلم میامی میں بنائی گئی اور تمام بیرون خانہ مناظر فلوریڈا میں فلمبند کیے گئے جس کے بعد یہ فلم دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے اور ایک اہم اور بالی وڈ کی بڑی پروڈکشن کی حامل فلم بنتی ہے جس سے ہم جنس پرستی کے بارے میں مکالمہ شروع ہوتا ہے۔

’’نیہا ‘‘کا کردار

جیسا کہ پریانکا کے کیرئیر میں یہ ایک معمول بن چکا تھا ،’’دوستانہ ‘‘میں بھی ایسا ہی ہوا اور نیہا ملوانی کاکردا ر جو کہ فلم میں فیشن ایڈیٹر کا تھا ، وہ پہلے ایشوریہ رائے کو آفر کیا گیا تھا۔اس نے یہ کردار اپنے نئے نویلے شوہرابھیشک بچن اور سیف علی خان کے مقابل کرنا تھا۔تاہم اس بار ایشوریہ رائے خود پراجیکٹ سے نکل گئی۔اب یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ نیہاکا بے باک کردار نہیں کرسکتی تھی جو فلم میں سوئمنگ سوٹ پہنتی ہے اور دیگر ٹائٹ لباس پہنتی ہے اور امیتابھ بچن اور جیہ بچن کی بہو ہونے کے ناطے اس کے لیے ایسا کردارکرنا مشکل تھا۔ایشوریہ رائے نے پہلی اور آخری مرتبہ بوسے کا منظر ’’دھوم ٹو‘‘میں کیا تھا ۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ایشوریہ کی ابھیشک سے منگنی ہونے کے بعد امیتابھ بچن نے فلم کے پروڈیوسر یش چوپڑا سے درخواست کی تھی کہ وہ فلم میں سے بوسے کا منظر نکال دیں۔چنانچہ یہ بات قابل فہم ہے کہ ایشوریہ کے لیے ’’دوستانہ ‘‘میں نیہا کا کرداراداکرنامشکل تھا۔

ایشوریہ کا نقصان پریانکاکے لیے فائدے کی طرح تھا۔دونوں کے درمیان کرداروں کی تبدیلی کا واقعہ اس سے پہلے ایک مرتبہ اور پیش آچکا تھا۔ جے پی دتہ کی ’’امرائو جان ‘‘ میں مرکزی کردار کی پیش کش اصل میں پریانکا چوپڑا کو کی گئی تھی۔لیکن چونکہ اس کے پاس ڈیٹس کے لیے تاریخیں نہیں تھیں اس لیے یہ کردار ایشوریہ رائے کو چلا گیا۔’’امرائو جان ‘‘1981کے شاہکار کا ری میک تھی جو باکس آفس پر برُی طرح ناکام ہوئی۔

کرن جوہرکا کہنا تھا کہ فلم میں سے ایشوریہ کے نکلنے کے بعد انہوں نے اور ترن نے مرکزی کردار کے لیے کسی بھی اور اداکارہ کے بارے میں نہیں سوچا۔وہ بتاتے ہیں ، ’’میرا خیال تھا کہ اس نے(پریانکا چوپڑا) ابھی ابھی ’’بلف ماسٹر ‘‘ اور ’’کرش ‘‘جیسی فلمیں دی ہیں اور اب وہ ایک ایسے زون میں تھی جہاں وہ ہاٹ کیک بن رہی تھی۔چنانچہ ￿ہم نے ’’دوستانہ ‘‘ کا کردار اسے پیش کیا۔‘‘بعدازاں سیف علی خان بھی فلم سے نکل گئے اور ان کا کردار جان ابراہام کو دیا گیا۔

پریانکا کاکرن جوہرکو فون 

یہ ابتدائی لمحوں کی بات ہے جب کرن نے ترن کو پریانکا سے ملنے کے لیے بھیجا اور د ونوں میں کوئی ہم آہنگی نہ ہوسکی ۔پھر ترن نے پریانکا کو سکرپٹ سنایا تووہ واپس آیا ا ور کرن سے ملاقات کی۔’’میں نے اسے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہ نیہا کا کردار کرے گی۔اس نے پوچھا کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے اور میں نے کہا کہ مجھے نہیں پتہ لیکن مجھے لگتا ہے کہ ایسا کوئی اشارہ نہیں مل رہا کہ وہ اس پراجیکٹ کے حوالے سے پرجوش ہو۔اسی اثنا میں پریانکا نے بھی کرن کو فون کیا اور کہا ،’’مجھے سکرپٹ بہت پسند آیا ہے لیکن ڈائریکٹر کے حوالے سے میرے تحفظات ہیں۔‘‘ ترن بتاتے ہیں،پریانکا کا کہنا تھا ،’’وہ(ترن ) تو بہت سنجیدہ انسان ہیں اور میں حیران ہوں کہ وہ ایک کامیڈی فلم بنا بھی سکیں گے یا نہیں۔‘‘کرن نے ایک بھرپور قہقہہ لگایا ا ور ہمیں کہا ،’’تم دونوں نے ضرورت سے زیادہ مستعدی دکھائی جبکہ درحقیقت تم دونوںبہت جنونی ہو۔‘‘ترن نے کہا ،’’اس کے بعد ہم باہر گھومنے پھرنے لگے ا ور گپ شپ لگانے لگے اور تب ہمیں پتہ چلا کہ وہ تو اتنی ہی جنونی ہے جتنے ہم ہیں۔ہمارے درمیان زبردست تعلق بن گیا اور پھر ہر چیز بدل گئی۔‘‘

پریانکا کا اعلان

لیکن پریانکا پہلے ہی یہ اعلان بھی کرچکی تھی کہ وہ فلم میں اس وقت تک عریانیت کامظاہرہ نہیں کرے گی جب تک کہ سکرپٹ اس کا حقیقی معنوںمیں تقاضا نہ کرتا ہو۔ترن بتاتے ہیں ،’’جب سوئمنگ سوٹ پہننے کی بات ہوئی تو پریانکا ہچکچاہٹ کاشکار تھی کیونکہ کسی نے بھی صورت حال کو اس کے سامنے اس طرح پیش نہیں کیاتھا کہ وہ احساس گناہ سے دامن بچاسکے۔‘‘ کرن نے اسے بٹھایا اور بات چیت کی حتیٰ کہ وہ اس بات پر متفق ہوگئے کہ وہ اس کی پسند کا سوئمنگ سوٹ خریدنے کے لیے اس کے ساتھ مارکیٹ جائیں گے۔چنانچہ وہ ، میں اور کاسٹیوم ڈیزائنر منیش ملہوترا میامی میں شاپنگ کرنے کے لیے گئے۔وہاں پر اسے ایک سوئمنگ سوٹ پسند آگیا اوراس لمحے کے بعد وہ رواں ہوگئی۔ترن کا کہنا تھا کہ فلم کے آئوٹ ڈورمناظر میامی میں تھے جہاں اگر آپ نے سوئمنگ سوٹ نہ پہنا ہو تو مشکل ہوتی ہے۔

’’دوستانہ ‘‘میں پریانکاچوپڑا کو بڑے بالی وڈ انداز میں متعارف کرایا گیا۔فلم میں اس کے جسمانی خدوخال سے کھیلتے ہوئے اس کے کردار کی اصلیت کو راز میں رکھا گیا۔ابھیشک بچن اور جان ابراہم کے کردار اپارٹمنٹ کی تلاش میں آتے ہیں ۔وہ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ہم جنس پرست ہیں تاکہ انہیں کوئی سستا اپارٹمنٹ مل جائے جس کو وہ دونوں شیئرکرسکیں۔رئیل اسٹیٹ ایجنٹ انہیں کہتا ہے کہ ان کی درخواست منظور ہوجائے گی لیکن حتمی فیصلہ نیہا کرے گی ۔اس پر ابھیشک بچن نے پوچھا کہ یہ نیہا کون ہے۔تب ہمیں پریانکا کی آواز سنائی دی ،’’نیہا میں ہوں۔‘‘ہماری نظر اس کے اشتعال انگیز گلابی ہونٹوں پر پڑی جب اس کے منہ سے نکلا ،’’ہائے‘‘۔پھر ہم نے اس کی جھیل سی آنکھوں کو دیکھا جو سبز رنگ کی تھیں ۔اس نے مالٹے رنگ کالباس پہن رکھا تھا۔پریانکا کا پورا چہرہ دیکھنے سے پہلے کئی شاٹ فلمائے گئے ۔دونوں مرد بہت پرجوش تھے۔

ڈائریکٹر سے ہم آہنگی

’’فیشن ‘‘ اور ’’دوستانہ‘‘ ساتھ ساتھ فلمائی جارہی تھیں ا ور ان دونوں فلموں کی تیاری کے دوران پریانکا کی اداکاری نکھرتی چلی گئی۔تاہم اس کے باوجود ترن کو اس کی اداکاری کو مزید بہتر بنانے کے لیے مداخلت کرنا پڑی تاکہ وہ اداکاری کے اس درجے سے آگے نکل سکے جو اس نے کشور نمت کپور سکول میں سیکھی تھی اورجس کا اس نے اپنی بالی و ڈ کی ابتدائی فلموں میںمظاہرہ کیا تھا۔

ترن بتاتے ہیں ،’’جب وہ ’’دوستانہ ‘‘کرنے آئی تو اس کی اداکاری کا معیار بہت بہتر ہوچکا تھا اوراس کی اداکاری بالی وڈ کے معمول کی بلند ترین سطح پرپہنچ چکی تھی۔یہ مبالغہ آرائی کی دنیا ہے۔چنانچہ جب اس نے مجھے پہلا شاٹ دیا تو مجھے یاد ہے کہ میں نے اسے کہا کہ ’’ایسا نہ کرو ۔ جس طرح تم خودہوبالکل اس طرح کرو۔‘‘جب ہم اگلے شاٹ کی تیاری کررہے تھے تو میرے پاس آئی اور بولی ، ’’کیا آپ کو اس پر یقین ہے؟کیونکہ یہ اداکاری کے جیسا نہیں لگتا ۔‘‘اور میرا ردعمل تھا کہ ہمیں اداکاری کی ضرورت بھی نہیں۔تم اپنا اصل پن دکھائو۔بالکل جس طرح حقیقی پریانکا چوپڑا ہے۔پھر وہ سمجھنے لگی کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اوراس کی پرفارمنس زیادہ نارمل ہوگئی۔‘‘پھر ایک ایسا وقت آیا کہ پریانکا اور ترن میں ایک فطری ہم آہنگی پیدا ہوگئی اور پریانکا اکثر کسی خاص منظر یا ڈائیلاگ کے حوالے سے اپنی رائے دینے لگی۔ترن بتاتے ہیں کہ اکثر وہ میرے پاس آتی اور مجھے کہتی کہ فلاں ڈائیلاگ میں ایک لفظ دو مرتبہ بولا گیا ہے ۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے کیونکہ اس کی وجہ سے اسے لگتا تھا کہ وہ اپنے الفاظ کو دہرارہی ہے۔وہ مجھے ہر وقت ہلکان کیے رکھتی اور بطور ڈائریکٹر میرے لیے یہ بہترین چیز تھی۔مجھے مسلسل یہ فکر رہتی کہ وہ میرے پاس آئے گی اور سوالات کرے گی(جاری ہے)