آج ملک بھر میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒکا یوم پیدائش قومی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔مملکت خداداد کے مسیحی شہری پیغمبر خدا حضرت عیسیٰ مسیحؑ کا یوم ولادت بھی عقیدت سے منا رہے ہیں۔یہ اہم موقع ہے جب دنیا میں حضرت مسیح ؑکے پیروکار کہلانے والے حکمرانوں کے سامنے عالمی امن کے قیام کا چیلنج ہے جبکہ پاکستان میں جمہوریت ، سماجی انصاف اور آزادیوں کے معاملات ہیں ۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ (1876–1948) پاکستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ قابل احترام رہنماؤں میں سے ہیں۔25 دسمبر 1942 کو قائد اعظمؒ کی سالگرہ کے موقع پر متعدد تقریبات منائی گئیں: آل انڈیا مسلم لیگ نے غریبوں کے لیے فنڈ کا اہتمام کیا اور نوابزادہ لیاقت علی خان نے قائدؒ کے لیے ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا۔ دہلی کے ویلنگٹن پویلین میں، مسلم شہریوں نے قائدؒ کے لیے ایک الگ استقبالیہ دیا۔ اس کے بعد سے، ہر سال 25 دسمبر کو قائد اعظمؒکے اعزاز میں ان کی زندگی کے دوران متعدد تقریبات منعقد کی گئیں۔ ان تقریبات میں استقبالیہ، پریڈز، یادگاری تقریبات، تقاریر اور دیگر عالمی رہنمائوں کی جانب سے پذیرائی شامل تھی۔ پاکستان کے قیام کے بعد قائد اعظمؒ نے 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقسیم فلسطین پر بحث کے دوران اپنے پہلے وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو اقوام متحدہ بھیجا اور کہا کہ "مغربی قوتیں مشرق وسطیٰ کو زبردستی ایک مغربی پٹہ ڈال رہی ہیں۔ ." انہوں نے خبردار کیا کہ مغرب کو اسرائیل کے قیام کی منظوری کے نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔25 اکتوبر 1947 کے اپنے ایڈیشن میں، اخبار "پاکستان ٹائمز" نے بابائے قومؒکی ایک تقریر شائع کی جس میں انہوں نے امید ظاہر کی کہ فلسطین کی تقسیمکا منصوبہ اقوام متحدہ کی طرف سے مسترد کر دیا جائے ۔ بصورت دیگر انہوں نے کہا کہ ’’بڑی تباہی اور بے مثال تصادم لازم ہے، نہ صرف عربوں اور اس اتھارٹی کے درمیان جو تقسیم کے منصوبے کو نافذ کرنے کا بیڑہ اٹھائے گی، بلکہ پوری مسلم دنیا ایسے فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گی جس کی تاریخی طور پر حمایت نہیں کی جا سکتی۔ " 76 سال گزرنے کے بعد کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ بابائے قومؒ واقعی ایک گہری بصیرت رکھنے والے رہنما تھے جنہوں نے تاریخ کی دیواروں پر لکھی ہوئی باتوں کو پڑھا اور ان کے الفاظ آج بھی گونجتے ہیں۔غزہ میں پچھلے دو ماہ سے اسرائیل کی سفاکیت برہنہ ناچ رہی ہے۔اسرائیل کو پیدا کرنے والے مجرمانہ طور پر اب بھی اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ساری دنیا جنگ بندی کی اپیل کر رہی ہے لیکن امریکہ و برطانیہ قرارداد کو ویٹو کر رہے ہیں، یہی نہیں بلکہ اسرائیل کو نہتے فلسطینیوں کو مارنے کے لئے اسلحہ فراہم کر رہے ہیں۔قائدؒ یہ تباہی عشروں پہلے دیکھ کر متنبہ کر رہے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے تحریک پاکستان اور تکمیل پاکستان کی جدوجہد کے دوران ریاست اور شہری کے باہمی تعلق کا خاکہ پیش کیا۔ان کی تقاریر اور تصورات جا بجا نظر آتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے بعد آنے والوں نے قائد کی پیروی نہیں کی۔کیا نظام کے مطابق لوگوں کو بدلنا چاہیے یا نظام کو لوگوں کے مطابق بدلنا چاہیے؟ علمی اور سیاسی حلقوں میں یہ بحث آزادی کے 76 سال بعد بھی متحرک اور متعلقہ ہے۔ الزام تراشی اور ذمہ داری سے گریز کرنا مختلف قومی فورمز پر ہونے والی فکری مباحث کی اہم خصوصیات بن چکی ہیں۔ جمہوریت مخالفانہ رویہ اور سیاسی گفتگو کی ڈرامائی نوعیت کی وجہ سے پیدا ہونے والا یہ چڑچڑاپن اس وقت تک ملک کے نوجوانوں کی امیدوں کو کھاتا رہے گا جب تک کہ ایک حقیقی قیادت منظرعام پر نہیں آتی جو ذمہ داری قبول کرتی ہے، چیلنجز کو قبول کرتی ہے اور سب سے بڑھ کر قیادت کے وضع کردہ نمونوں پر عمل کرتی ہے۔ پاکستان کی معاشی بدحالی، نااہل سیاسی نظام، ریاست کا بحران، خودمختاری کو لاحق بیرونی خطرات، ادارہ جاتی زوال، سیاست سے عوام کا مایوس ہونا، اشرافیہ کی گرفت، نسلی تقسیم، مذہبی عدم برداشت اور قیادت کا بحران قائد کے اسوہ کو اپنانے میں ہماری ناکامی کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوری وژن اور سیاسی ذہانت کا اظہار ان کے اتحاد، ایمان اور نظم و ضبط کیاصولوں میں پوشیدہ ہے۔ یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ہمیں جمہوریت کی کسی دوسری شکل کی ضرورت نہیں ہو گی سوائے اس قسم کے جس کا قائدؒ نے کثرت کے ساتھ خاکہ پیش کیا۔ عوام کی حاکمیت کو قبول کرنا ضروریہے۔ اس کی بنیاد ملک کے آئین، انصاف اور قانون کی بالادستی کے احترام پر ہونی چاہیے۔ سماجی سطح پر مساوات اور رواداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ جمہوری عمل کو موجودہ جمہور کش قوانین کو ختم کرنا چاہیے، فیصلہ سازی کے عمل کو جمہوری بنانا شروع کرنا چاہیے، تمام سیاسی فورمز پر ایک جمہوری ثقافت تخلیق کرنی چاہیے۔ لوگوں کو تعلیم، سماجی کاری کے ذریعے جمہوری رویوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملنا چاہیے۔سیاسی نظام میں صرف جمہوری کلچر ہی اس نظام کی پائیداری کی ضمانت دے سکتا ہے، جس کا معاشی ترقی سے گہرا تعلق ہے۔یوم قائدؒ کے موقع پر شہری، ریاستی مشینری اور نظام کے سامنے سوال رکھے جا رہے ہیں کہ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒکے تصورات سے دور کیوں ہو گیا۔شہری ریاست سے کیا چاہتا ہے،پاکستان خطے کے باقی ممالک سے پیچھے کیوں رہ گیا ہے؟