غزہ کی پٹی اندھیرے میں ڈوب چکی ہے۔ بجلی، پانی،ایندھن، تمام ذرائع مواصلات منقطع کر دیے گئے ہیں۔گھر، بازار، سکول، ہسپتال کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ موت کا اندھیرا، لاشوں کے انبار ، کٹے پھٹے وجود اور جابجا بکھرے انسانی اعضاء ، بم بارود کی بو اور گرد وغبار کا اٹھتا کالا دھواں ، روشنی ہے تو بس آگ برساتے میزائلوں کی۔ کیا منظر کشی کروں ؟ کربلا کے میدان کا احوال تو بس کتابوں میں پڑھا تھا یا قصوں میں سنا لیکن غزہ میں جاری بربریت کی داستان تو آج کی ہے، ابھی کی ہے۔ اس دنیا کی جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ہمیں گھر بیٹھے آنکھوں دیکھا حال دکھاتا بھی ہے اور سناتا بھی ہے۔ آنکھیں نم ہیں، دل غمزدہ ہے اور بے بسی عروج پر ہے۔ یہ سب جملے حقیقتاً بے معنی سے لگ رہے ہیں کیونکہ بحثیت انسان اور مسلمان میں کچھ بھی کرنے سے قاصر ہوں۔ دل غم سے پھٹتا ہے، جب اپنے ہنستے مسکراتے بچوں کو دیکھتے ہوئے ان بچوں کا خیال آتا ہے جنکے ہاتھوں ، بازؤوں اور پیروں پر انکے والدین نام اور ولدیت لکھ رہے ہیں کہ نجانے کس لمحے میزائل گرے اور سب خاک و خون ہو جائے، ایسی صورتحال میں اپنوں کی شناخت کا کوئی تو ذریعہ ہو۔ اپنے پیاروں کو دفنانے اور عمارتوں کے ملبے سے ڈھونڈنے ، اپنے بچوں کے جسمانی اعضاء کو ایک تھیلے میں جمع کرتے والدین بھی شاید اب باقی نہیں رہے۔ جس بربریت، ظالمانہ اور وحشیانہ طریقے سے غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے اور مغربی طاقتیں ایک ہو کر مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی ہیں یہ ایک نا ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہے۔ عالمی میڈیا ایک جانب اسرائیل کی اس وحشیانہ اور ظالمانہ کارروائیوں کی مذمت کر رہا ہے تو دوسری جانب تھپکی بھی دے رہا ہے۔ اسرائیل ایک بد مست ہاتھی کی مانند اپنی راہ میں حائل ہر شے کو روندتا چلا جا رہا ہے اور تمام اسلامی ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا المیہ ہے کہ اب شیر تو کوئی بچا نہیں سب کے سب گیدڑ ہی رہ گئے ہیں لہذا گیدڑ بھپکیاں عروج پر ہیں۔ اسلامی دنیا کے تمام لیڈران قبلہ اول کو بچانے ، ظالموں سے نجات دلانے کی بجائے "مذمت فی سبیل اللّٰہ" کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ محض مذمت کرنے سے آسمان سے فرشتے قطار در قطار اتریں گے اور فلسطینیوں کو نجات مل جائے گی یا قنوت نازلہ پڑھنے اور "نصر من اللہ و فتح قریب" کا ورد کرنے سے غیبی مدد آن پہنچے گی، یوں بیھٹے بٹھائے غزہ میں جاری بربریت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ وہاں تمام مغربی طاقتیں مسلم نسل کشی کیلیے ایک ہوچکی ہیں اور یہاں امت مسلمہ سوشل میڈیا پہ فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ لڑی رہے ہیں اور تمام حکمران دن رات مذمت مذمت کی گردان کر رہے ہیں۔ میری سمجھ سے باہر ہے کہ آخر کہاں ہیں، وہ تمام لوگ جو عمران خان کی گرفتاری پر تو ڈنڈے اٹھائے سڑکوں پر نکل آئے تھے ؟ سارے اسلام آباد کو آگ لگانے کی دھمکیاں دے رہے تھے ، جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری تھا۔ کہاں ہیں ن لیگ کے وفادار کارکنان اور سیاسی رہنما جو اپنے لیڈر کے استقبال کے لئے دور دراز علاقوں سے بھی نکل آتے ہیں؟ کہاں ہیں پی پی پی کے جیالے جو اپنے لیڈر کی شہادت کو بھلائے نہیں بھولتے ؟ ہم اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک پیج پر اکٹھے ہو سکتے ہیں۔ اپنے اپنے مفادات اور سیاست و اقتدار کی خاطر ساری دنیا سے لڑ جاتے ہیں لیکن جہاں بات آتی ہے مظلوم و محکوم مسلمانوں کی ، ظلم و بربریت کا شکار بچوں ، عورتوں اور جوانوں کی، وہاں محض بیان بازی سے کام لیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں بہت سی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے اسرائیل کے ظلم پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے لیکن کیا محض اتنا کافی ہے؟؟ تمام سیاسی و غیر سیاسی جماعتیں ، نیز مذہبی رہنما اور انکے پیروکار یک جان اور یک زبان ہو کر مقتتدر طبقے پر زور نہیں ڈال سکتے کہ محض بیان بازی اور مذمت سے کام نہیں چلے گا۔ اسرائیل اور اسکے اتحادیوں سے ہر طرح کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ہر طرح کے سفارتی تعلقات کو فی الفور منقطع کر کے فلسطینیوں کی ہر ممکن مدد کی جائے چاہے اسکے لیے ہمیں سیاسی قوت استعمال کرنی پڑے یا عسکری۔ ہمیں ہر حال میں انکا ساتھ دینا چاہیے کیونکہ یہ ہمارا اولین دینی فریضہ ہے۔ ایک مسلمان ہونے سے پہلے انسان ہونا ضروری ہے اور اسلام ہمیں انسانیت کا جو درس دیتا ہے، اس پر محض باتوں سے عمل نہیں کیا جاسکتا۔ ہو سکتا ہے قارئین کرام کو میری باتیں بہت بچگانہ اور جذباتی لگ رہی ہوں لیکن یقین رکھیے اگر کل ہم پر ایسا وقت آیا تو کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا۔ ہمارے میزائل ہمیں پر گرائے جائیں گے اور ہمارا اسلحہ اور بندوقیں کسی کے کام نہیں آئیں گی۔ فلسطین میں ہمارے مسلمان بہن بھائی یہودیوں اور نصرانیوں کی بربریت کا شکار تھے اور ہم جاگتی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بھی ورلڈ کپ میں الجھے رہے یا ہم نے تمام امت مسلمہ کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے اور اپنی سیاسی و عسکری قیادت کو ظالم سے مقابلہ کرنے پر تیار کیا؟ ہم کونسی تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں اسکا فیصلہ ابھی کرنا ہوگا۔ اگر تمام دنیا کے مسلمان ظالم کا ساتھ دینے والوں کا معاشی بائیکاٹ کر سکتے ہیں، تو ہم مل کر اور بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آخر کتنے بچے مروانے کے بعد ہماری غیرت جاگے گی؟ آخر کتنے ہزاروں گھر اجڑنے کے بعد ہمیں کچھ کرنے کا خیال آئے گا ؟ یہ بم، میزائل ، بندوقیں اور اسلحے ہم نے کونسے وقت کیلئے سنبھال رکھے ہیں؟ اس سے زیادہ کڑا اور کٹھن وقت دیکھنا ابھی باقی ہے کیا؟ موت برحق ہے اور ہم سب نے یکے بعد دیگرے اس دنیا سے رخصت ہو جانا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم عزت کی موت کو گلے لگاتے ہیں یا ذلت و رسوائی کی موت کا انتخاب کرتے ہیں؟ فیصلے کا وقت ابھی ہمارے پاس ہے وگرنہ اوپر بیٹھی ذات باری تعالیٰ جو ہمیں آزما رہی ہے ، اس رب العالمین نے اپنا فیصلہ سنا دیا تو یقیناً ہم اس دنیا کے رہیں گے نا اگلی دنیا میں کامیابی نصیب ہوگی۔