دین اسلام میں جہاں عبادات پر زور دیا گیا ہے وہیں پر انسان کی قدر و منزلت بھی واضح بتادی ہے ۔ کہیں پر انسان کو خلیفۃاللہ فرمایا گیا تو کہیں اس کی تخلیق کو احسن تقویم فرمایا گیا ۔یہی آدمی ہے جو مسجودِ ملائک ٹھہرا ، تمام انبیاء کرام علیہم السلام نسل انسانی میں ظہور پذیر ہوئے ۔ ایک طرف نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کے دوستوں کے چہرے ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو دیکھو تو تمہیں رب یاد آجائے دوسری طرف اس کی حرمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ‘‘۔ یہی انسان نیک ہو تو آدم بن کر مسجود ملائک، نوح بن کر نجات دہندہ، عیسیٰ بن کر شفاء بخش، سلیمان بن کر ہوا پر تصرف پا لیتا ہے (علیہم السلام) اور اگر اپنی ہستی کو پستی کی طرف دھکیل دے تو چوپائے سے بھی بد تر زندگی کا نمونہ پیش کرتا ہے ۔ چاہیے تو یہ کہ جو جس قدر عظیم ہے وہ اسی قدر عظیم تر کاموں میں خود کو مصروف رکھے ، دکھ،درد،غم کو برداشت کرنا بھی انسان کا ہی خاصہ ہے ۔ سیدنا ایوب علیہ السلام نے صبر کرکے دکھایا، سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اولاد سے والہانہ محبت کی عکاسی کی ،سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے حکم خداوندی پر بلا چون و چراں عملدرآمد کرکے دکھایا ۔ وہ آدمی کس قدر بے صبرے پن کا مظہر ہے جو اللہ کی عطا کی ہوئی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں سے ختم کر دیتا ہے ۔ یہ ناشکری ہے اس احسانِ عظیم کی جو ربِ کائنات نے زندگی کی شکل میں ہم پر فرمایا ہے ۔ زندگی کی قدر کیجئے کیونکہ رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’تم اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘( البقرہ)دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :’’اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو،بے شک اللہ تم پر مہربان ہے اور جو شخص ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے دوزخ کی آگ میں ڈال دیں گے ‘‘( النسائ) آج زمانہ جس تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا ہے اسی تیزی کے ساتھ انسانیت سے گراوٹ کا شکار نظر آتا ہے ۔ ذرا ذرا سی بات پر اپنی جان کو ختم کر دینا معمولی بات ہے ۔ کالجز و یونیورسٹی کے پڑھے لکھے طلباء و طالبات میں بڑھتا ہوا خود کشی کا رجحان معاشرے کی بے ہمتی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ماں، باپ کی ڈانٹ ڈپٹ کسی کو برداشت نہیں تو کسی کو کاروبار میں ذرا سا نقصان۔ کسی کو اپنی توہین برداشت نہیں تو کسی کو کسی کی خوشی، کوئی دنیا کی محبت میں خود کو ختم کر رہا تو کوئی منصب کے نہ ملنے پر ۔ مایوسیوں کے اس بھنور سے موجودہ تعلیمی سسٹم نکالنے میں ناکام نظر آتا ہے ، آج پڑھا لکھا نوجوان اپنے ماں باپ کو دقیانوسی خیالات کا پیروکار کہتا دکھائی دیتا ہے ۔ جس ماں نے اس کیلئے ان گنت تکالیف برداشت کیں اسی کو دھکے دیتا اور گھر سے نکالتا نظر آتا ہے ۔ اپنی جان کی قدر کریں اسے اپنے ہاتھوں سے ختم نہ کریں ۔ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو تمام عالمین کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے آپ کا یہ فرمان عبرت نشان دلوں کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ ’’جس شخص نے کسی بھی چیز کے ساتھ خود کشی کی وہ جہنم کی آگ میں اسی چیز سے عذاب دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری)۔ دنیا کی عارضی زندگی میں جو بندہ اپنے خاتمہ کے لیے اپنے ہاتھوں جس چیز کا انتخاب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسی کو عذاب بنا کر اس پر مسلط فرما دے گا اور جہنم میں وہی عمل مسلسل ہوتا رہے گا۔ گویا خود کشی کرنے والا مرنے کی تکلیف ایک مرتبہ نہیں بلکہ لاتعداد مرتبہ سہتا رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص کی میت لائی گئی جس نے اپنے آپ کو تیرسے ہلاک کر لیا تھا ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی (صحیح مسلم ) ۔ جس کی نماز جنازہ سے تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منہ موڑ لیں اس کی بد بختی کا اندازہ کون کر سکتا ہے صرف اس لیے کہ اس نے حرام کی موت کو گلے لگایا۔ اسی ضمن میں ایک طویل حدیث پاک کا مفہوم پیش خدمت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :’’ جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گرا کر ہلاک کیا تو وہ دوزخ میں جائے گا، ہمیشہ اس میں گرتا رہے گا اور اسی میں رہے گا۔ جس شخص نے زہر کھا کر اپنے آپ کو ہلاک کیا وہ زہر دوزخ میں بھی اس کے ہاتھ میں ہوگا۔ جسے وہ دوزخ میں کھاتا ہوگا اور ہمیشہ وہیں رہے گا۔ جس شخص نے اپنے آپ کو لوہے کے ہتھیار سے قتل کیا وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ دوزخ کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور ہمیشہ ہمیشہ وہیں رہے گا۔ ‘‘(صحیح بخاری) گویا خود کشی کرنے والا مرنے کے بعد اس دنیا میں سکون نہیں پاتا بلکہ مرنے کے بعد بھی اسے سکون نصیب نہ ہوگا کیونکہ وہ ناشکرا ہے اور جوناشکری کرے اس کی سزا طویل سے طویل ترین ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس ارشاد ربانی ہے کہ ’’تم میرا شکر ادا کرو میں نعمتوں میں اضافہ فرما دوں گا‘‘(سورۃ ابراہیم) آئیے اپنی اس زندگی میں آنے والے دکھوں کو برداشت کرنا سیکھیں اس شخص سے جو پائوں سے محروم ہے لیکن مسکرا رہا ہے ، اس سے جو قوت گویائی سے محروم ہے لیکن سجدہ شکر بجا لاتا ہے ، جو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن زبان پر کلمات تشکر سجائے رکھتا ہے ۔ اگر آج ہم اس زندگی اور اس میں ملنے والی نعمتوں پر شکر خداوندی بجا لاتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان نعمتوں میں مزید اضافہ فرماتا رہے گا۔ ارشاد ربانی ہے ’’ ہر تنگی کے بعد آسانی ہے ‘‘(سورۃ الانشراح)۔ اللہ پر بھروسہ کریں وہ مشکلات میں آسانی عطا فرمانے والا ہے ۔