لانگ مارچ کے دوران عمران خان کا رویہ سخت ہے اور مزاج جارحانہ۔بیلٹ یا بندوق ، ہر صورت وہ انقلاب چاہتے ہیں۔ ایمرجنسی اور مارشل لاء کی باتوں سے بھی وہ ہچکچا نہیں رہے۔فوجی افسران کے نام لے لے کر تنقیدکر رہے ہیں،جواب میں تالیاں بجتی ہیں تو ان کے جوش و خروش میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔شاید انہیں واقعی لگتا ہے کہ عوامی سیلاب کے سامنے کوئی اسٹیبلشمنٹ ٹھہر نہیں سکتی۔ کیا انہیں صحیح لگتا ہے؟ عمران خان لانگ مارچ کے لیے نکل تو پڑے ہیں لیکن شش و پنج کا شکار لگتے ہیں ، اسلام آباد کب پہنچنا چاہیے، پہنچ کر کیا کرنا چاہیے؟جلسہ یا دھرنا؟ دھرنا دینا ہے تو کتنے عرصے کے لیے؟ مقام کیا ہو گا؟ ان سب سوالوں کے جواب یا تو صرف عمران خان کو معلوم ہیں یا انہیں بھی معلوم نہیں ۔ لانگ مارچ کاجب اعلان ہوا تھا تو ان کے قریب ترین ساتھیوں کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پریس کانفرنس میں کیا کرنے والے ہیں۔ واضح طور پر عمران خان ’’گو سلو ‘‘کی پالیسی پر چل رہے ہیں۔ لانگ مارچ روزانہ چند گھنٹے ہی چلتا ہے اور چند کلو میٹر کا سفر طے کر کے رک جاتا ہے۔ دو وجوہات ہو سکتی ہیں ۔ یا تو عمران خان پر امیدہیں کہ اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ان کے مطالبات مان لیے جائیں گے تبھی وہ فریق دوم کو مزید وقت دے رہے ہیں ۔ یا پھر عمران خان کو یقین ہو گیا ہے کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کے مطالبات منظور نہیں ہونے والے ۔ تبھی وہ گو سلو کی پالیسی پر گامزن ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ اگلے دس سے پندرہ دن کے دوران نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان ہو جائے اور ان کے لیے حالات میں بدلائو کی کچھ صورت پیدا ہو ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اگلے دس دن میں نئے چیف کے نام کا اعلان متوقع ہے۔ ہاں متوقع تو ہے اگر نیا چیف آنا ہے تو۔ مگر نواز شریف کے چند اہم اور قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ مدت ملازمت میں توسیع دینے یا نہ دینے کا ابھی حتمی طور پر فیصلہ نہیں ہوا۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف اپنے طور پر تو یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ موجود ہ چیف کی مدت میں توسیع نہیں دینی مگر شہباز شریف توسیع کے لیے اصرار کیے ہوئے ہیں ۔ شہباز شریف کا خیال ہے کہ نئے چیف کے آنے کے بعد انہیں چند ہفتے میں الیکشن میں جانا پڑ سکتا ہے جس کے لیے وہ سیاسی طور پر تیار نہیں ہیں۔ہر دو صورتوں میں نواز شریف کے لیے فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے۔ عمران خان کا خیال ہو گا کہ نومبر کے پہلے عشرے میں ہی نئے چیف کا اعلان ہو سکتا ہے۔تبھی ان کے لیے اپنی سیاسی حکمت عملی پر از سر نو غور کرنے کی صورت پیدا ہو گی۔شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی رفتار کو حد درجہ سست کیے ہوئے ہیں۔ ان کے پیش نظر یہ بات بھی ہے کہ اگر نواز شریف نے موجودہ چیف کو مدت ملازمت میں توسیع دے دی تو سیاسی جد و جہد کو کس رخ پر ڈالنا ہے اور اگراس کے برعکس نئے چیف آتے ہیں تو لب و لہجے میں نرمی پیدا کر کے کیسے اسٹبلشمنٹ کو معاملات کے سدھار کا موقع دینا ہے۔ آنے والے دنوں کا منظر نامہ کچھ بھی ہو،ا بھی تو عمران خان کا رویہ نہایت جارحانہ ہے۔ وہ لانگ مارچ کے کنٹینر سے اعلان کر رہے ہیںکہ بندوق سے آئے یا بیلٹ باکس سے ، انقلاب تو اب آنا ہی ہے۔ان کے خیال میں دنیا کی کوئی اسٹیبلشمنٹ عوام کے سامنے نہیں ٹھہر سکتی۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا مارشل لا ء بھی لگا دیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔گویاان کے خیال میں عوام کو اب روکا نہیں جا سکتا۔ ایک بات غور سے دیکھنے کی ہے کہ عمران خان اپنی سیاسی قوت کو’’ اوور ایسٹیمیٹ ‘‘تو نہیں کر رہے ہیں ۔ نواز شریف کہتے ہیں یہ دو ہزار لوگ ہیں اور انہیں فیس سیونگ نہیں ملنی چاہیے۔ اس کامطلب تو یہ ہوا کہ حکومت عمران خان کو اسلام آباد میں داخلے سے نہیں روکے گی اور انہیں یہ موقع فراہم نہیں کرے گی کہ وہ شیلنگ اور تشدد کو آئندہ کئی ہفتوں کے لیے سیاسی موضوع کے طور پر استعمال کر سکیںاور نواز شریف کے بقول اپنی ناکامی کو تشدد کے پیچھے چھپا سکیں۔ اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو عمران خان کا امتحان زیادہ بڑا ہو گا۔ کیاوہ لاکھوں کی تعداد میں عوام کو اسلام آباد لا کر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر اتنا دبائو ڈال سکیں گے کہ انہیں الیکشن کی تاریخ مل جائے۔ پر امن احتجاج اور لانگ مارچ سے آج تک تو پاکستان میں حکومت جاتے نہیں دیکھی گئی۔کیا عمران خان نئی تاریخ رقم کریں گے؟ جہاں ابھی تک کئی معاملات میں عمران خان فیصلہ نہیں کر پا رہے وہیں حکومت بھی مشکلات سے دوچار ہے۔حکومت کے لیے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں کہ عمران خان کے لانگ مارچ کوروکنا ہے یا آنے دینا ہے۔ اسلام آباد آنے کی اجازت دینے کے بعد صورتحال سے کیسے نمٹناہے اور اپنے اعصاب پر کیسے قابو رکھنا ہے۔ اگر یہ سب باتیں حکومت نے سوچنی اور طے کرنی ہیں تو شاید یہ ان کے لیے آسان نہیں ہے اور اگریہ فیصلے کسی اور نے کرنے ہیں تو بھی حکومت کے لیے اس پر عملدرآمد مشکل ہو گا۔ ظاہر ہے اس کے نتائج سے براہ راسست متاثر تو حکومت ہی نے ہونا ہے ۔ عمران خان اپنی سیاسی جدو جہد کو ایک اہم موڑ پر لے آئے ہیں ۔ کامیابی اور ناکامی دونوں کے ذمہ دار وہ تنہا ہوں گے۔ ان کے فیصلے پارٹی نہیں بلکہ وہ خود کر رہے ہیں اور پارٹی ان کے مقبول بیانئے کے باعث ان کی ہر بات ماننے پر مجبور ہے۔اِس وقت تک تو ان کا ہر قدم پارٹی رہنمائوں کو سیاسی طور پر فائدہ ہی پہنچا رہا ہے۔اب دیکھئے مقبولیت کا یہ گراف کب تک اوپر جاتا ہے اور حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں ۔