مشتاق احمد یوسفی صاحب لکھتے ہیں کہ زمانہ طالبعلمی میں ایک مرتبہ اردو کے پیپر میں لفظ'' شدہ'' سے چار لاحقے لکھنے کو کہا گیامیں نے جواب میں لکھا ''شادی شدہ، گم شدہ، ختم شدہ، تباہ شدہ ''اگلے روز استاذ محترم نے پیپرز چیک کر کے واپس دئیے اور مجھے لاحقوں والے سوال میں چار میں سے آٹھ نمبر ملے میں نے استاذ محترم سے فالتو نمبروں کے متعلق پوچھا وہ مسکرا کر کہنے لگے" پتر!چار نمبر صحیح جواب دینے کے ہیں اور چار صحیح ترتیب کے ہیں ۔پہلے اساتذہ بھی کیا کمال کے لوگ ہوا کرتے تھے بروقت اور برجستہ جواب دینا انہیں آتا تھا اپنے طالب علم کی نفسیات کا بھی انہیں بخوبی علم ہوتا تھا اور وہ کتنے پانی میں ہے یہ بھی وہ بدرجہ اتم جانتے تھے ایک استاذ اس وقت ہی اچھا استاذ بن سکتا ہے جب اسے اپنے طالب علم کی نفسیات کا مکمل علم ہو مشتاق احمد کو مشتاق احمد یوسفی ایسے ہیاساتذہ کی وجہ سے بنے جنہوں نے نہ صرف ان کی رہنمائی کی بلکہ حوصلہ افزائی بھی ہے یہ کہا جاتا ہے ایک طالب علم کا ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے استاذ جو چاہے لکھ سکتا ہے زمانہ طالب علمی میں سکول کا دور زندگی کی کتاب کا سنہری باب کہلاتا ہے جو ہر طرح کے فکر اورغم سے آزاد ہوتا ہے کسی بھی قسم کی کوئی ذمہ داری کندھوں پر ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی سوچ گھائل کئے جا رہی ہوتی ہے۔ اس عمر میں اچھے اساتذہ کی رہنمائی اور پھر حوصلہ افزائی کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی ۔اقوال ذریں میں سے ہے کہ درس و تدریس کے شعبہ میں ایک استاذ کی شخصیت درسی مواد سے زیادہ اہم ہوتی ہے ایک اچھا استاذ اپنے طلباء کا رول ماڈل ہوتا ہے، عملی زندگی میں بھی اگر سینئرز اچھے لوگ مل جائیں ان کا وجود بھی اچھے اساتذہ سے کم نہیں ہوتا بہت سی گتھیاں سلجھ جاتیں ہیں اور بڑے مسائل حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اپنے صحافتی کیرئیر میں انتہائی سینئر صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا بیشتر اپنی شخصیت میں ایک درسگاہ تھے۔ ان میں اردو زبان سے شغف اپنی جگہ موجود تھا ،برجستہ اور موقع محل کے مطابق گفتگو کرنا انہیں آتا تھا انگریزی سے اردو ترجمہ کا فن بھی خوب جانتے تھے انہیں زبان و بیان پر ایسا کمال کا عبور تھا کہ ان کے انگریزی سے کئے ہوئے اردو ترجمہ کو کوئی پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ ترجمہ ہے یا ایک خوبصورت الفاظ میں بیان کی گئی خبر، وہ بڑی بڑی بات ایک جملہ میں بیا ن کرجانے کے گر سے آشنا تھے۔ احمد کمال مرحوم المعروف'' استاد جی''اردو اخبارات کے پایہ کے نیوز ایڈیٹر تھے نیوز روم میں ان کی اپنی شان ہوا کرتی تھی۔ آتے ہی سب سے مصافحہ کرتے ہر ایک کا حال احوال پوچھتے ایک بے تکلف طبعیت کے انسان تھے میری طرح کے کئی استاد اور استاذ کے بنیادی فرق سے نا واقف سب ہی احتراما انہیں ''استاد جی''کہا کرتے تھے ، ایک روز نیوز روم میں داخل ہوئے میں دائیں جانب بیٹھا ہوا تھا استاد احمد کمال نے حسب معمول السلام علیکم کہا، میں نے بھی جوابا وعلیکم السلام استاد جی کہا ، اس روز وہ میرا جواب سنتے ہی چند لمحوں کیلئے ر کے اور پوچھا آپ مجھے استاد کہتے ہو یا استاذ، میں نے کہا استاد ، میرا جواب سنتے ہی وہ ذرا مسکرائے اور چھا کہہ کراپنی نشست پر بیٹھ گئے مجھے ان کی معنی خیز مسکراہٹ سے اندازہ ہو گیا کہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے اب استاد اور استاذ کا فرق جاننے کا تجسس پیدا ہوا اتنا جانتا تھا کہ استا د اور استاذ میں بنیادی اور دقیق فرق ضرور ہے لیکن اس کے استعمال میں کسی قسم کی کوئی تفریق نہیں کی جاتی۔ استاد کی جگہ استاذ اور استاذ کی جگہ استاد لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ محترم بشیر سوہاوی مرحوم اردو اخبارات کے معروف اداریہ نویس رہے ہیں ان کی پہلی اور آخری محبت اخبار کا اداریہ تھی۔ اپنی زندگی کے آخری روز تک ایک موقر اخبار میں ادارتی صفحہ کے انجارچ کی ذمہ داریاں نبھا تے رہے انہیں اپنے پیشہ سے جنون کی حد تک عشق تھا روزانہ ا پنے گائوں سے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعہ سفر کرکے صبح سویرے اخبار کے دفتر پہنچ جاتے۔ پیرانہ سالہ کے باوجود ان کے معمول میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہمیشہ ان کے ہاتھ میں اردو ادب کی کوئی نہ کوئی کتاب ہوتی، دفتر پہنچ جانے کے بعد تمام اخبارات کا مطالعہ کرتے اور پھر اداریہ لکھنا شروع کردیتے ۔ اخبارات کی ایک ایک خبر اور انٹرویو ان کی نظر میں ہوتا اگر کوئی خبر یا انٹرویو اچھا شائع ہوا ہوتا رفقاء سے ضرور شیئر کرتے اخبار کا اداریہ بڑی ہی یکسوئی کے ساتھ لکھتے اور اس دوران کسی قسم کی کوئی مداخلت برداشت نہ کرتے۔ میرے ذہن میں استاد اور استاذ کا فرق جاننے کا اشتیاق تھاا اور ان دو الفاظ میں فرق واضح کرنے کیلئے محترم بشیر سوہاوی سے بہتر فرد کوئی اور نہیں تھا ایک روز حسب معمول صبح سویرے نیوز روم میں بیٹھے اکیلے ہی اداریہ لکھ رہے تھے میں نے پو چھا سر! استا د اور استاذ میں کیا فرق ہوتا ، گردن اٹھائی اور بڑے معنی خیز انداز میں کہا آپ کو اس کا مطلب معلوم نہیں؟میں نے نفی میں جواب دیامیرا یہ جواب سن کر وہ پھر اداریہ لکھنے میں مصروف ہو گئے کچھ دیر تک ان کے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر میں بھی اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ انہوں نے اداریہ سے فراغت کے بعد مجھے بلایا اور استاد اور استاذ کے معنی میں بنیادی اور دقیق فرق بارے بتایا کہ استاد ہر قسم کے عملی و فنی کام سکھانے والے فرد کو کہتے ہیں جبکہ استاذ صرف فکری، علمی اور کتابی شعور دینے والے فرد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے دونوں کے مفرد کی طرح جمع بھی مختلف ہیں استاد کی جمع اساتید اور استاذ کی جمع اساتذہ ہے اس کے بعد معلوم ہوا کہ احمد کمال استاد ہیں یا استاذاور انھوں نے اس روز کیوں استفسار کیا تھا کہ آپ مجھے استاد کہتے ہو یا استاذ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحومین کو اپنے جوا ر رحمت سے جگہ عطا فرمائے (امین)