پاکستان کا سیٹلائٹ مشن ’’ آئی کیوب قمر‘‘ خلا میں روانہ کر دیا گیا جسے پاکستان کے ’’ انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی ‘‘ ، جو کہ اسلام آباد میں قائم ایک پبلک یونیورسٹی ہے نے ’’ سپارکو‘‘ اور چین کی ’’ شنگہائی یونیورسٹی‘‘ کے تعاون سے تیار کیا ہے اور اسے چین کی نیشنل سپیس ایجنسی کے تعاون سے خلا میں بھیجا گیا ہے۔اس منصوبے میں مذکورہ یونیورسٹی کے سو کے قریب طلبہ نے اپنے اساتذہ کی نگرانی میں حصہ ڈالا ہے۔ پروگرام کے مطابق سیٹلائٹ پانچ دنوں میں چاند تک پہنچ جائے گا اور تین سے چھ ماہ تک چاند کے مدار میں اپنا کام کرے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ کی رحمت سے سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو پاکستان چاند کے مدار میں سیٹائٹ بھیجنے والا دنیا کا چھٹا ملک بن جائے گا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ کیا بات ہوئی، سیٹلائٹ تو چین خلا میں لے کر جا رہا ہے ۔ دوسری جانب ایسے لوگ بھی ہیں جو اسے ایک عظیم ترین کامیابی قرار دیتے ہوئے اسکا مقابلہ بھارت کے خلائی مشنز کے ساتھ کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس کا مقابلہ بھارت کے خلائی مشنز کے ساتھ کرنا غیر مناسب ہے کیونکہ بھارت کے خلائی مشنز بہرکیف تکنیکی اعتبار سے ہمار ے سیٹلائٹ سے بہت آگے تھے لیکن اس کے باوجود یہ ایک بہت بڑی کامیابی اور منزل کی جانب ایک بڑا قدم ہے ۔ کسی سیٹلائٹ کو خلا میں کسی سیارے کے مدار میں بھیجنے کے دو بڑے حصے ہوتے ہیں۔ ایک سیٹلائٹ کو ڈیزائن کرنا اور دوسرا اسے راکٹ کی مدد سے خلا میں بھیجنا۔ خلا یا مدار میں کام کرنے والا کوئی بھی سیٹلائٹ صرف عام کیمرہ نہیں ہوتا ۔ سب سے پہلے تو اسکے ڈیزائن کو اس قابل ہونا چاہئے کہ یہ کامیابی کے ساتھ اپنے راکٹ سے الگ ہو کر چاند کے مدار میں داخل ہو جائے۔ اگر نہیں ہو گا تو راکٹ بھیجنے والا ملک اسے اپنے مشن میں شامل کر کے کبھی مشن کو خطرے میں نہیں ڈالے گا۔ خلا اور چاند کے مدار میں ’’ ریڈی ایشن‘‘ کی مقدار زمین کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے اور چاند کی کشش ثقل بھی زمین کے مقابلے میں بہت کم ہے اس لیے سیٹیلائٹ میں استعمال ہونے والے الیکٹرانک آلات اور سینسر بھی خاص طور پر ڈیزائن اور تعمیر کیے جاتے ہیں جس کے لیے خاصی تکنیکی مہارت اور جدت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے اس بات میں تو کوئی شبہ ہونا ہی نہیں چاہئے کہ یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس اہم کامیابی میں جو سب سے بڑی اور چھی خبر ہے وہ یہ ہے کہ اس مشن میں سب سے اہم کردار پاکستان کی ایک ’’ پبلک یونیورسٹی‘‘ نے ادا کیا ہے۔ ہمارے ہا ں یونیورسٹیوں کا کام طالب علموں کو نصاب کی کتب کا رٹا لگوانا اور ان میں سے امتحان لے کر ڈگریاں بانٹنا رہ گیا تھا۔ کئی دہائیوں بعد ہماری کسی یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ نے مل کر پاکستان کے لیے اتنی جدید ٹیکنالوجی تخلیق کی ہے۔ اور ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹی، اسکے اساتذہ اور طلبہ دنیا کی جدید ترین یونیورسٹیوں، اداروں کے ساتھ نہ صرف اشتراک کر سکتے ہی بلکہ ان ہی کی سطح کا کام بھی کر سکتے ہیں۔ رہا سوال اپنے سیٹلائٹ خود خلا میں بھیجنے کا تو اس قسم کی ٹیکنالوجی پہلے ہی ہمارے پاس موجود ہے جس کا ثبوت ہمارا بیلاسٹک میزائل پروگرام ہے۔ اس معاملے میں جو امر ہمار ے لیے مانع ہے وہ کمزور معیشت ، پیسے کی کمی، اور سب سے بڑھ کر کچھ کر دکھانے کی خواہش اور لگن کا فقدان ہیں۔ قارئین اور نئی نسل کو شاید یقین نہ آئے لیکن پاکستان نے خلا میں اپنا پہلا راکٹ 7 جون 1962 کو بھیجا تھا جسکا نام ’’راہبر اول ‘‘ تھا۔ اس دن پاکستان خلا میں راکٹ بھیجنے والا دنیا کا دسواں اور جنوبی ایشیا کا پہلا ملک بن گیا تھا۔ رہبر اول کو کسی دوست ملک نہیں بلکہ بلوچستان میں ’’ سونمیانی‘‘ کے مقام پر بنائے گئے لانچنگ پیڈ سے خلا میں داغا گیا تھا۔ اسکے بعد اسی برس ’’ رہبر دوئم‘‘ خلا میں بھیجا گیا۔ اتنا ہی نہیں اسکے بعد اگلے دس برس میں ’’سپارکو‘‘ نے قریب قریب دو سو راکٹ خلا میں بھیجے جن میں آخری 8 اپریل 1972 کو خلا میں بھیجا گیا۔ اس زمانے میں ’’ ٹھیوریٹیکل فزکس‘‘ ’’ پارٹیکل فزکس‘‘ اور ’’ نیچرل پراڈکٹ کیمسٹری‘‘ جیسے علوم میں دنیا پاکستانی سائنسدانوں کے کام سے استفادہ حاصل کرتی تھی۔ بہت سے موجودہ جدید ترین علوم کی بنیاد اس زمانے میں پاکستانی سائنسدانوں ( جیسے فیاض الدین، ریاض الدین، اشفاق احمد، سلیم الزماں صدیقی ) کی تحقیق پر قائم ہے۔ اس کے بعد وقت کا پہیہ دوسرے ممالک کے لیے سیدھا چلتا رہا لیکن ہمارے لیے الٹا گھومنا شروع ہو گیا۔ اس وقت دنیا کے ممالک میں تحقیق اور سائنس کی عالمی رینکنگ ( گلوبل اینو ویشن انڈکس) کی جاری کردہ 132 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 88 ہے۔ جمیکا، آرمینیا، منگولیا اور تھائی لینڈ جیسے ممالک بھی ہم سے بہت بہتر ہیں۔ کیا ہماری عوام کی غالب اکثریت کی زندگیو ں کا واحد مقصد مفت کھانے، سستے آٹے اور مفت ادویات کا حصول ہی رہے گا؟ کیا ہماری کوشش یہ نہیں ہونی چاہئے کہ ہم اور ہماری معیشت اتنی ترقی کر لے کہ ہمیں اس سب ’’ مفتے ‘‘ کی ضرورت ہی نہ ہو؟ روٹی کی قیمت ہماری حکومتوں کی کامیابی کا پیمانہ کب تک رہے گا؟ عوام تعلیم، تحقیق اور سائنس کی اہمیت کو کب سمجھیں گے ؟ اس کے بغیر کشمیر اور فلسطین کو آزاد کروانے کی باتیں دیوانے کے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ یاد رہے کہ اس فہرست میں ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت کا نمبر چالیسواں اور مئی 1949 میں اقوام متحدہ کا ممبر بننے والے اسرائیل کا نمبر 14 ہے۔ اسی لیے دنیا کو فلسطین میں اسرائیل کے مظالم اور فلسطینیوں کی نسل کشی نظر نہیں آتی۔امید اور دعا ہے کہ ہم لوگ جلد از جلد تعلیم اور سائنس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسے اپنی پہلی ترجیحات میں شامل کر لیں بلکہ پہلی اور واحد ترجیح بنا لیں۔ اس کے بغیر پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکتا ۔