قیام پاکستان کے فوری بعد قوم کو جن مسائل سے واسطہ پڑا ان میں سب سے اہم معاملہ مہاجرین کی بحالی اور متروکہ املاک کی منصفانہ تقسیم تھی، جس میں قوم کو بدترین صورت حال کا سامنا ہوا، اس ضمن میں پنجاب کے ایک سابق چیف سیٹلمنٹ کمشنر توقیر احمد فائق کی خود نوشت سے کچھ چشم کشا حقائق گزشتہ ایک کالم (29 اپریل2024ئ)میں ناظرین سے شیئر کیے تھے، جبکہ کچھ مزید بھی ہیں، ملاحظہ ہوں: " دوسرا طریقہ نسبتاً آسان اور قاعدے قانون کے قریب تر تھا، وہ یوں کہ الاٹمنٹ کرنے والے مجاز افسر پر قانوناًیہ پابندی تو تھی کہ وہ کسی کے کلیم پر درج تصدیق شدہ یونٹوں سے زیادہ رقبہ الاٹ نہیں کرسکتا تھا مگر یہ پابندی نہیں تھی کہ یہ رقبہ کہاں اور کس موضع میں الاٹ کیا جائے گا۔ وہ چاہتا تو الاٹمنٹ ضلع کے کسی دور افتادہ گاؤں میں کردیتا اور چاہتا تو ضلعی صدر مقام یا دوسرے شہروں کی میونسپل حدود سے باہر مگر ملحقہ موضع میں کردیتا۔ یہ اس کی اپنی صوابدید تھی، مگر لوکیشن کے اس فرق سے رقبے کی مالیت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا۔ چنانچہ شہروں سے قریب مواضعات میں الاٹمنٹ کروانے کی بھاری رشوت وصول کی جاتی یا پھر سیاسی اور انتظامی اثرورسوخ استعمال ہوتا۔ یہ وجہ تھی کہ سیاستدانوں اور اس وقت کے بڑے بڑے افسروں نے شہروں کے گرداگرد متروکہ زمینیں اپنے عزیز و اقارب کے نام الاٹ کروائیں۔ شہروں کے پھیلنے سے وہ رقبے رفتہ رفتہ میونسپل حدود میں شامل ہوتے چلے تھے اور ایکڑوں الاٹ ہونے والی اراضی کنالوں کے حساب سے فروخت ہونے لگی تو اس کے الاٹیوں کے وارے نیارے ہوگئے۔شہری جائیدادوں کا معاملہ اس سے بھی زیادہ گھمبیر تھا۔ 1947ء سے پہلے پنجاب کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہندو اور سکھ حضرات بے شمار شہری جائیدادوں کے مالک تھے۔ ان کے انڈیا ہجرت کر جانے کے بعد یہ سب جائیدادیں اب متروکہ املاک کے زمرے میں شامل تھیں۔ ان میں مکانات تھے، دکانیں تھیں، بڑی بڑی رہائشی حویلیاں اور اونچی اونچی عمارتیں تھیں۔ ان میں سینما ہال بھی تھے اور فیکٹریاں بھی، لاہو رہی کی مثا ل لیں۔ہمارا ماڈل ٹاؤن ہندوؤں اور سکھوں کی ملکیت تھا۔ انار کلی بازار کی بڑی بڑی دکانیں اور مال روڈ پربلند وبالا تجارتی عمارتیں سب غیر مسلموں کی تھیں۔ اسی طرح بہت سے سینما ہالز اور فیکٹریاں بھی انہی کی ملکیت تھیں۔ ان جائیدادوں میں مہاجرین کو الاٹمنٹ کا قانون اور طریقہ کار تو وہی تھا کہ درخواست دہندہ اپنا کلیم داخل کرتا، اس کی تصدیق کی جاتی اور پھر جائیداد یا اس کا کوئی جزوی حصّہ الاٹ کردیا جاتا۔ مگر اس میں بدعنوانی اور رشوت ستانی کا ریٹ زرعی رقبوں کی نسبت بہت زیادہ تھا۔ کئی صورتوں میں تو ایسا بھی ہوتا کہ بڑی بلڈنگ کے پورشن بنا کر الگ لوگوں کو الاٹ کردیئے جاتے۔ اس سارے عمل کا ایک ضمنی نتیجہ یہ بھی تھا کہ مقدمہ بازی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ عدالتوں پر ان مقدمات کا اتنا بوجھ بڑا کہ ان کے روٹین کے مقدمات میں تاخیر ہونا شروع ہوگئی۔ وکیلوں کی چاندی ہو گئی۔ لوگ بھاری بھاری فیسیں دے کر وکیل کرتے جو عدالتوں میں ان کے مقدمات کی پیروی کرتے۔ ایک عدالت سے فیصلہ ہوجانے کے بعد اس سے اوپر کی عدالت میں اپیل کردی جاتی۔ عام طور پر عدالتیں بھی کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے گریز کرتیں اور پہلا فیصلہ کالعدم کرکے کیس از سرِ نو سماعت کے لیے سیٹلمنٹ حکام کو ریمانڈ کردیا جاتا، جس سے مقدمے کا ایک نیا راؤنڈ شروع ہوجاتا اور یوں مقدمہ بازی کا یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔قصہ مختصر کہ محکمہ بحالیات رفتہ رفتہ کرپشن کا گڑھ بنا گیا۔ یہ گندے پانی کا ایسا جوہڑ بن چکا تھا جس کی بدبو دور دور تک پھیل چکی تھی۔ 1975ء میں بالاخر بھٹو صاحب کے دور میں حکومت کو احساس ہوا کہ ملک کو بنے 28 سال ہونے کو آئے ہیں مگر کلیم داخل کرنے اور الاٹمنٹ کروانے کی یہ دوڑ ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی۔ چنانچہ انہوں نے 1975ء میں ایک قانون پاس کیا جس کا نام تو لمبا سا تھا یعنی The Evacuee Property and Displaced Persons Laws (Repeal) Act,1975 مگر عرف عام میں ہم سب اسے "Repeal" ایکٹ ہی کہتے تھے۔ اس کے تحت ملک میں نافذ متروکہ املاک کے کلیم داخل کرنے اور الاٹمنٹ کروانے والے سارے سابقہ قوانین منسوخ کردیئے گئے تاکہ بدعنوانی اور جعلسازی کا یہ منبع کسی طریقے سے بند ہوسکے۔ اس قانون کے نفاذ کے بعد نئے کلیم داخل کرنے اور ان کی بنیاد پر الاٹمنٹ کرنے کا سلسلہ بند ہوگیا۔ البتہ اس قانون میں یہ استثنیٰ(Exception)ضرور دیا گیا کہ جو Pending Proceedingکسی عدالت یا مجاز حاکم کے پاس اس قانون کے نفاذ کے وقت زیر سماعت تھیں انہیں سابقہ منسوخ شدہ قانون کے تحت ہی نمٹایا جاسکے گا۔ اس قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی مرکزی حکومت کا محکمہ بحالیات توڑ دیا گیا اور متروکہ املاک کا بقایا "Residual"کام صوبوں کو ٹرانسفر کردیا گیا، جہاں پر بورڈ آف ریونیو کو اس کا م کا انچارج محکمہ بنایا گیا۔ یہ قانونی پوزیشن تھی جب مارچ 2003ء میں مَیں نے بورڈ آف ریونیو کو جوائن کیا اور مجھے چیف سیٹلمنٹ کمشنر کے جسے مختصر اًہم CSCکہتے تھے، اختیارات تفویض کیے گئے۔ CSCکے اختیارات کے دو پہلو تھے۔ ایک کو ہم ایگزیکٹو سائیڈ کہتے تھے اور دوسرے کو جو ڈیشل سائیڈ، ایگزیکٹوسائیڈ پر ہم پرانی الاٹ شدہ جائیدادوں کے کرایہ جات وصول کرتے، ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کو ٹرانسفر کرنے کی اجازت دیتے، اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے منگوائی گئی رپورٹیں تیار کرتے اور اسی طرح کے دیگر متفرق امور سر انجام دیتے۔ جوڈیشل سائیڈ پر ہم مختلف نوعیت کے مقدمات کی سماعت کرتے۔ باقاعدہ عدالت لگتی اور فریقین اپنے اپنے وکلاء حضرات کے ساتھ پیش ہو کر اپنا کیس Pleadکرتے۔ یہ بڑی باریک بینی کا کام ہوتا تھا۔ مختلف قانونی موشگافیوں اور اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے آمدہ ہدایات کی روشنی میں کیس کی سماعت ہوتی۔ چیف سیٹلمنٹ کمشنر کے طور پر یہ پوسٹنگ میرے لیے ایک نہایت چشم کشا تجربہ تھا۔ متروکہ املاک کی الاٹمنٹوں میں ہونے والی ہوشربا کرپشن کی دستانیں پہلے تو صرف سْنی ہوئی تھیں، اَب ان فائلوں کے ذریعے اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیں۔ یوں لگتاتھا کہ جعلسازی اور بدعنوانی کے اس حمام میں پوری قوم ننگی تھی، کیا لیڈر اور کیا عوام، سب اس میں گردن گردن تک دھنسے ہوئے تھے۔ وہاں مجھے ایک بزرگ کا قول رہ رہ کر یاد آتا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ قیام پاکستان سے پہلے "پاکستان کا مطلب کیا، لاا لہٰ الا اللہ" کا نعرہ لگا کر اس قوم نے اللہ سے ایک عہد کیا تھا کہ وہ اس ملک میں خدا کا نظام نافذ کریں گے اور اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی اللہ کے احکامات کی روشنی کے مطابق بسر کریں گے۔ اس عہد کی صداقت جانچنے کے لیے اللہ نے پہلا امتحان متروکہ املاک کی صورت میں پیش کیا تو پوری قوم اس امتحان میں فیل ہوگئی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ کوئی بھی فرد یا قوم، جب اللہ کے ساتھ کیے ہوئے اپنے وعدے کو توڑتی ہے اس کا حشر وہی ہوتا ہے جو اس وقت ہمارے ملک کا ہورہا ہے۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔ "