اپنے ملک میں سیاسی ارتقاء کچھ یوں ہوا ہے کہ کہ سیاست پر اور حکمرانی پر کچھ خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہو گئی ہے ۔شریف خاندان کے جناب شہباز شریف ملک کے وزیر اعظم ہیں ، ان کی بھتیجی جنابہ مریم نواز شریف ملک کے سب سے بڑے صوبہ کی وزیراعلیٰ ہیں ۔ دوسری طرف اپنے ملک کے دوسرے بڑے سیاسی خاندان یعنی بھٹو خاندان کے جناب آصف علی زرداری دوسری دفعہ صدر پاکستان ہیں۔ شریف خاندان کے جناب نواز شریف موجودہ دور کے سب سیاستدانوں میں سے حکمرانی کا سب سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ملک کے سب سے بڑے صوبہ یعنی پنجاب کے دو دفعہ وزیراعلیٰ اور اپنے ملک کے تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں ۔ آج کل ان کی بیٹی مریم نواز پنجاب کی وزیراعلیٰ ہیں۔ مریم نواز کسی حکومتی عہدہ پر پہلی دفعہ براجمان ہوئی ہیں سو اُن کے پاس حکومتی عہدہ اور حکومتی عہدہ بھی اس لیول کا چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے ، اگرچہ اُن کی مدد کے لیے اُن کی دو پرانی ساتھی مریم اورنگ زیب اور عظمیٰ بخاری صاحبہ بطور وزیر اُن کے ساتھ موجود ہیں۔ ظاہر ہے تجربہ کا کوئی متبادل نہیں ہوتا ! مریم صاحبہ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اُن کے پاس ایسے والد موجود ہیں جن کے پاس انتہائی اہم سرکاری عہدوں کو چلانے کو وسیع تجربہ ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ قدم قدم پر اُن سے رہنمائی حاصل کریں ۔ اس سے اُن کا ذاتی فائدہ تو یہ ہو گا کہ وہ ایک منجھی ہوئی وزیر اعلیٰ کی شکل اختیار کر لیں گی اور دوسر ا فائدہ صوبہ پنجاب کے باشیوں کو ہو گا کہ ان کے روز مرہ کے حالات بہتر سے بہتر ہوتے جائیں گے۔آج کل جناب نواز شریف صاحب کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے ، نہ ہی کوئی سیاسی اور نہ ہی کوئی حکومتی ۔ ابھی جب حال ہی میں وہ ایک ذاتی اور پرائیویٹ دورہ پر چین گئے تھے جس کا اہم مقصد اُن کا ذاتی میڈیکل چیک اپ تھا تو لوگوں کا خیال تھا کہ وہ وہاں سے یورپ چلے جائیں گے، لیکن ایسا نہ ہوا اور وہ واپس لاہور آگئے۔اگرچہ کچھ باخبر لوگوں کا یہ خیال تھا کہ وہ واپس لاہور ہی آئیں گے کیونکہ یہی موجودہ حالات کا تقاضا ہے ۔ یہیں پر وہ بات یاد آ جاتی ہے کہ دیکھنے والی آنکھیں اُڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں ۔ بہر کیف میاں نواز شریف یورپ نہ گئے اور واپس لاہور آگئے! سچ پوچھیں جتنے حالات آج کل پنجاب کے دگر گوں ہیں میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے! جس شعبہ زندگی کو دیکھیں وہ زوال پذیر ہے ۔اس کی واضح وجہ یہ ہے کہ جب حالات کو سنبھالنے والا کوئی نہ ہو تو ہر شعبہ زندگی ترقی معکوس کی طرف رواں ہو جاتا ہے۔میاں نواز شریف جیسے جہاندیدہ اور وسیع حکومتی تجربہ رکھنے والے شخص سے فائدہ نہ اُٹھانا بھی تو ایک بد قسمتی ہے ۔مریم نواز شریف کی نیک نیتی اور خلوص سے حکومت چلانے کی خواہش سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے لیکن تجربہ کا کوئی متبادل نہیں ہے ۔ یہ اُن کی خوش قسمتی ہے کہ اُن کے پاس اتنے جہاندیدہ اور حکومتی امور کا اتنا وسیع تجربہ رکھنے والے والد موجود ہیں، انھیں چاہیے کہ وہ اُن سے بھر پور فائدہ اُٹھائیں ۔ کون نہیں جانتا کہ جتنے خلوص سے ماں باپ اپنی اولاد کی بہتری کا سوچتے ہیں ، کوئی اور سوچ ہی نہیں سکتا ۔ مجھے یہ بھی خیال آتا ہے کہ میاں صاحب آج نہیں تو کل یورپ چلے جائیں گے ، اُس کی واضح وجہ یہ ہے کہ اُن کی صحت کے کچھ ایسے مسائل ہیں جن کا صحیح اور بر موقع علاج یورپ ہی میں ممکن ہے۔ میاں صاحب کی موجودگی کا فائدہ پوری حکومت پنجاب کو اُٹھانا چاہیے ۔ سنا ہے انھیں اپنی پارٹی مسلم لیگ (ن) کی صدارت کا عہدہ بھی تفویض کیا جا رہا ہے ، اس کا واضح فائدہ یہ ہو گا کہ بطور پارٹی چیئرمین وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مختلف امور کو نہ صرف دیکھ سکیں گے بلکہ اس سلسلے میں ہونے والی مختلف میٹنگز کی صدارت بھی کر سکیں گے ۔اُن کے بھائی کو تو شاید اُن کی اتنی ضرورت بھی نہ ہو اور شاید وہ چاہیں بھی نہیں کیونکہ وہ خود اب بہت زیادہ تجربہ کار ہیں اور کچھ حلقوں میں ہر دلعزیز بھی، لیکن اپنی بیٹی کے لیے تو والد ہمیشہ ایک رہنما ہی رہتا ہے ۔مریم نواز کو چاہیے کہ وہ اپنی خواتین سیاسی دوستوں کو بیشک سرکاری امور چلانے کا موقع دیں لیکن رہنمائی کے لیے اپنے والد صاحب کو صوبائی حکومت کے امور میں ضرور شامل رکھیں۔ اس چلن سے حکومتی امور نہ صرف بہتری کی طرف رواں ہو جائیں گے بلکہ مریم صاحبہ کو بھی وہ ٹریننگ میسر آ جائیگی جس کا تصور کوئی خوش قسمت ہی کر سکتا ہے۔مریم نواز شریف صاحبہ کو چاہیے کہ وہ زیادہ تر میٹنگز جاتی عمرہ میں ہی رکھا کریں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ وہ میاں صاحب کو ساتھ لے کر لاہور شہر کے مختلف علاقوں کے دورے کیا کریں! اس تجویز کا ایک واضح مقصد یہ ہے کہ میاں نواز شریف لاہور شہر کی گلی گلی سے آگاہ ہیں اور وہ لاہور شہر کو خوبصورت بنانے کا شوق بھی رکھتے ہیں ۔ یقین کریں اگر میاں نواز شریف نے لاہور شہر پر ہی توجہ مرکوز کر لی تو لاہور شہر ایک دلہن کی طرح سج جائیگا ۔ لیکن اب اس سٹیج پر اور عمر کے اس حصے میں ان سے یہ کام کرانا اتنا ممکن نہیں ہے ۔ ہاں البتہ ، اگر ایسا اُن سے کرانے کی نیت مریم نواز شریف نے کر لی تو والدین تو اپنی اولاد کی خواہشوں کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں ۔سچ پوچھیں ، کبھی کبھی میں لاہور کی موجودہ صورت حال دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ کہاں گئے وہ لاہور کو پیرس بنانے والے لوگ ۔ ہر طرف گندگی کے ڈھیر ، بے سمت ٹریفک کے انبوہ اور بے نمبری چنگچیوں اور موٹرسائیکلوں کے سڑکوں پر بہتے دریا ۔ جنابہ مریم نواز شریف نے پورے پنجاب کو گندگی سے پاک اور صاف ستھرا پنجاب بنانے کا اعلان تو کیا تھا لیکن اس کے کوئی واضح نتائج سامنے آ نہ سکے ، گندگی کے ڈھیر ہر طرف اور ہر شہر میں نظر آتے ہیں ۔مریم صاحبہ نے طالب علموں کے لیے ایک پراجیکٹ کا اعلان بھی کیا ہے اور وہ ہے انھیں قسطوں پر سستے داموں موٹر سائیکل مہیا کرنا ۔ پہلے اعلان کیا گیا کہ یہ موٹر سائیکل الیکٹرک ہونگے لیکن بعد میں اس اعلان میں ترمیم کر کے یہ کہا گیا کہ یہ موٹر سائیکل پٹرول پر چلنے والے ہوں گے ۔سچ پوچھیں موٹر سائیکلوں کا اعلان سن کر تو دل ڈوب سا گیا کیونکہ یہ شہر لاہور تو اب موٹر سائیکلوں کا سمندر لگتا ہے ، موٹر سائیکلوں میں اور اضافہ ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کسی زمانے میں لاہور کو باغوں کا شہر کہا جاتا تھا ، شہر لاہور کے موجودہ حالات دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ اب یہ شہر باغوں کا شہر نہیں بلکہ موٹر سائیکلوں کا شہر ہے ۔