اسلامی تعاون کی تنظیم(OIC) کا 15واں سربراہی اجلاس 4 سے 5 مئی 2024 کو جمہوریہ گامبیا کے دارالحکومت بنجول میں منعقد ہوا ہے۔ اس سربراہی اجلاس کا موضوع ’پائیدار ترقی کے لیے مکالمے کے ذریعے اتحاد اور یکجہتی کو بڑھانا‘ ہے۔ اس سربراہی اجلاس سے پہلے دو تیاری کے اجلاس ہوئے ہیں جن میں پہلا، او آئی سی کے سینئر عہدیداروں کی میٹنگ اور دوسرا، او آئی سی کونسل آف وزرائے خارجہ کی میٹنگ، جو بالترتیب 30 اپریل سے 1 مئی اور 2 مئی سے 3 مئی تک منعقد ہوئی ہے۔ 15واں سربراہی اجلاس امت مسلمہ کے لیے ایک ایسے نازک وقت پر منعقد ہوا جب غزہ کے عوام کے خلاف اسرائیل کی جارحیت اور جنگ بلا روک ٹوک جاری ہے اور اس جنگ میں اب تک 35000 سے زیادہ افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں جاری اسرائیلی جنگ اس سربراہی اجلاس کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔ اتوار کے سہ پہر اس کالم کے لکھنے تک سربراہی اجلاس جاری تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلمان ممالک کی اس 57 رکنی تنظیم کی سربراہی اجلاس میں وزرائے خارجہ کی کونسل کی طرف سے منظور کردہ قراردادوں اور مسلم دنیا کو درپیش چیلنجز پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے بعد اجلاس کے اختتام پرتین اہم دستاویزات منظور کے جانے کی امید ہے جن میں ایک مسودہ فلسطینی قرارداد، ایک مسودہ بنجول بیان، اور مسودہ حتمی دستاویز شامل ہیں جنہیں وزرائے خارجہ کی کونسل اور اس کے بعد بحث کے لیے سربراہی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ اِس کالم میں دو سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔ پہلا یہ کہ او آئی سی مسلم دنیا کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئی ہے؟ دوسرا یہ کہ پاکستان نے او آئی سی میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ او آئی سی کے حوالے سے عام مسلمانوں میں یہ تاثر ہے کہ یہ ’’اوہ آئی سی‘‘ ہے۔ تاہم او آئی سی جیسی کثیر الجہتی تنظیم جو کہ جغرافیائی طور پر مربوط تنظیم نہیں ہے کے کردار کو عملی طور پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دوسرا سب سے بڑا کثیرالجہتی فورم ہے تاہم اس کی کچھ حدود و قیود ہیں۔ او آئی سی ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم نہیں ہے اس لیے یہ دنیا کی بڑی طاقتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوئی خاص طاقت نہیں رکھتی۔ اسی طرح، OIC، بہت سی دیگر کثیر جہتی تنظیموں کے برعکس، اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے نفاذ کا سامان نہیں رکھتی۔ بلکہ، یہ صرف اخلاقی دباؤ ڈال سکتی ہے اور دوسری ریاستوں کے رویے اور ردعمل کو تبدیل کرنے کے لیے قائل کرنے والے اقدامات کا استعمال کر سکتی ہے۔ جبکہ یہ کام، او آئی سی، فلسطین، روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور غیر قانونی طور پر ہندوستانی مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی قراردادوں کی منظوری کے ذریعے کر رہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ او آئی سی نہ تو کوئی فوجی اتحاد ہے اور نہ ہی اس کے پاس اجتماعی فوجی کارروائی کے لیے کوئی مشترکہ فوجی قوت ہے۔ مسلم دنیا کا سنگین مسئلہ اندرونی تقسیم ہے۔ 1945 سے1990 تک جاری رہنے والی سرد جنگ کے دوران مسلم دنیا بلاک سیاست میں تقسیم ہو گئی تھی جس کا مرکز سوویت قیادت والے کمیونسٹ بلاک اور امریکی زیر قیادت سرمایہ دارانہ دنیا تھی۔ اِس اندرونی تقسیم نے مسئلہ فلسطین کو بری طرح متاثر کیا۔ اسی طرح مسلم دنیا میں عرب اور عجم (غیرعرب) کی تقسیم بھی ہے۔ مسلم ممالک کی اِس اندرونی تقسیم اور ذاتی مفادات کی ترجیحات کی ایک مثال یہ بھی دی جا سکتی ہے کہ جب اِسلام آباد میں وزرائے خارجہ کی کونسل کا 48واں اِجلاس جاری تھا تو مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی بحیرہ احمر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ اور ابو ظہبی ولی عہد شیخ محمد بن زید النہیان کی میزبانی کر رہے تھے۔ اس سربراہی اجلاس نے او آئی سی کے رہنماؤں کے لیے اکٹھے مل بیٹھنے کا ایک موقع فراہم کیا تاکہ غزہ کی سنگین صورتحال پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کے بعد مسئلہ فلسطین پر ایک مضبوط، اجتماعی اور متفقہ موقف پیش کیا جاسکے۔ او آئی سی کے15 ویں سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے، پاکستان کے ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار نے غزہ میں جاری نسل کشی، جموں و کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت، امت کی یکجہتی اور اتحاد کی ضرورتوں، بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا، موسمیاتی تبدیلی، دہشت گردی جیسے اہم چیلنجز پر پاکستان کا نقطہ نظر مسلم امّہ کے سامنے پیش کیا ہے۔ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے اور بربریت کے ابتدائی ایام سے ہی پاکستان فلسطینی عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی امدادی اداروں کے لیے انسانی ہمدردی کی راہداری کھولنے کے ساتھ فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ جہاں تک اسلامی تعاون کی تنظیم(OIC) میں پاکستان کے کردار کا تعلق ہے، پاکستان اپنے قیام سے لے کر اب تک نسل، رنگ اور جغرافیائی محل وقوع سے بالاتر ہوکر مسلم دنیا کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اور مسئلہ فلسطین میں پاکستان کی حمایت کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی بلکہ پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اپنے مفادات کو نقصان پہنچایا ہے اور فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ ثابت قدمی سے کھڑا ہے۔ مسلم ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کا قیام پاکستان کی خارجہ پالیسی کا ایک اَہم عنصر ہے۔ اِس نکتے پر زور دیتے ہوئے پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے ’’گہری ہمدردی اور دلچسپی‘‘ کو یاد کیا جو برطانوی ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے اندر سیاسی شعور کی پیدائش سے ہی خلافتِ عثمانیہ کی بحالی کی تحریک چلا کر کی۔ او آئی سی کے بانی رکن کے طور پر، پاکستان مسلم کاز کے لیے او آئی سی کی کوششوں میں ہمیشہ سب سے آگے رہا ہے چاہے مسئلہ فلسطین ہو یا ایران عراق جنگ، کویت عراق جنگ، افغانستان کا مسئلہ ہو یا پھر دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلم اقلیتوں کو درپیش چیلنجز ہوں۔پاکستان کو تنظیم کے کئی اِجلاسوں کی میزبانی کرنے کا اعزاز حاصل ہے جیسے کہ 1974 میں OIC کا دوسرا سربراہی اجلاس اور 1997 میں OIC کا ایک غیر معمولی سربراہی اجلاس اور 1970، 1980، 1993، 2007 اور 2022 میں وزرائے خارجہ کی کونسل (CFM) کا اجلاس۔ سربراہی اجلاس میں پاکستان کے نائب وزیراعظم کی شرکت او آئی سی میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے پاکستان کی مسلسل کوششوں اور مضبوط عزم کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ مسلم دنیا کو درپیش کثیر جہتی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی لگن کی بھی تصدیق کرتی ہے۔