سابق وزیراعظم شاہد خان عباسی اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور دوسرے حکام جن پر نیب نے اس الزام میں ریفرنس دائر کیا تھا کہ انہوں نے آر ۔ این۔ ایل ۔جی ٹرمینل کاٹھیکہ رولز کے خلاف ایک کمپنی کو دے دیا جس سے قومی خزانہ کو اربوں روپے کا نقصان ہوا تھا، اس مقدمہ کو گزشتہ دنوں نیب عدالت نے خارج کر دیا۔آر۔ این۔ایل۔ جی ٹرمینل کیس 2016ء میں بند کردیا گیا تھا ۔ لیکن جب 2018 ء میں عمران حکومت نے اقتدار سنبھالا تو اس کیس کو ری اُوپن کرایا گیا تھا۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اس کیس میں شاہد خاقان عباسی مفتاح اسماعیل اور دوسرے ملوث حکام کو سخت سزا ہوگی ۔ اس کیس میں تو نیب ریفرنس واپس لینے کی استدعا کی تھی جس پر گزشتہ دنوں نیب عدالت نے سابق وزیراعظم اور وزیرخزانہ کو بری کر دیا۔ سابق زیراعظم نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف بھی جو مقدمات نیب قوانین کے تحت بنائے گئے تھے اُن میں وہ بھی بری ہو چکے ہیں۔ نواز شریف کے دونوں صاحبزادوں کو بھی حال ہی میں اُن کے خلاف قائم مقدمات میں عدالتوں کی طرف سے کلین چٹ مل چکی ہے۔ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کو پی ڈی ایم حکومت کے دوران منی لانڈرنگ کے نیب ریفرنس میں بری کردیا گیا تھا۔ حالانکہ پی ٹی آئی حکومت میں احتساب کیلئے خصوصی مشیر شہزاد اکبردعویٰ کر رہے تھے کہ شہباز شریف اور اُن کے صاحبزادوں کے خلاف منی لانڈرنگ کے بہت مضبوط کیس ہیں جن میں وہ نہیں بچ سکتے۔ لیکن ان کیسوں میں بھی وہ بری ہو چکے ہیں۔ حال ہی میں صدر آصف زرداری کے خلا ف بنائے گئے منی لانڈرنگ کے ریفرنس میں صدر زرداری نے یہ کہہ کر ریلیف حاصل کر لیا ہے کہ بطور صدر انہیں ان مقدمات میں قانوناً استثنیٰ حاصل ہے۔ صدر زرداری پر 1990ء اور1997ء کی مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے دوران بھی بدعنوانی کے کئی کیس دائر کیے گئے تھے لیکن زرداری صاحب کا ان کیسوں میں بال بھی بیکا نہیں ہوا ا ور بڑے فخر سے دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ اُن کا کئی سال تک احتساب ہوتا رہا اور اُن پر کوئی کیس ثابت نہیں ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جو 2008ء سے 2013 ء تک تھا اس دور کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور وزیر پانی و بجلی راجہ پرویز اشرف کے خلاف سنگین بد عنوانی کے کیس بنے لیکن وہ اُن کرپشن کیسز میں باعزت بری ہوچکے ہیں۔ کئی دوسرے سیاسی لیڈر جن پر مختلف ادوار میں بدعنوانی کے کیس بنے اور عدالتوں میں چلائے گئے اُن میں سے شاہد ہی کسی کو سزا ہوئی ہے۔ سیاستدانوں پر لوٹ مار کے کیس بنتے ہیں تو وہ ان کیسوں کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ انہیں کسی جماعت سے وابستگی کی بنیاد یا حکومت مخالف ہونے کی وجہ سے ’’احتساب‘‘ کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ اس احتساب کو اب ’’سیاسی انجینئرنگ‘‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ عوام اس بات پر پریشان ہیں کہ وہ کس پر یقین کریں۔ جب کسی سابق حکمران پر بدعنوانی کے مقدمات درج ہوتے ہیں اور ملکی خزانے کو لوٹنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے مقدمات بنتے ہیں خورد برد ہونے والی اربوں اور کھربوں روپے کی رقوم کا جب ذکر آتا ہے تو لوگ توبہ توبہ کر تے ہیں کہ قومی خزانے کا ساتھ یہ کیا کھلواڑ ہو رہا ہے۔ لیکن چند ماہ یا چند سال کے بعد بدعنوانی کے ان ’’سنگین مقدمات‘‘ میں بری ہو کریہ لیڈر ’’وکٹری‘‘ کا نشان بناتے جلسے کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف اگر احتساب کرنے والے اداروں کے اعداو شمار دیکھے جائیں تو پتہ چلتاہے کہ قومی خزانے کے کھربوں روپے لوٹ لئے گئے ہیں۔ دو دن پہلے سینٹ کے اجلاس میں ایک سینٹر نے دعویٰ کیا کہ نگران حکومت میں ایک صاحب نے جن کا انہوںنے نام نہیں لیا ، یوکرین سے گندم کی درآمد میں 86 ارب روپے بنائے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی شائع ہوئی ہے کہ آزاد کشمیر کے لئے درآمد کی گئی ایک ارب روپے مالیت کی چائے کی پتی ایک گودام سے برآمدگی ہوئی ہے۔ چندروز قبل وزیراعظم نے ایف بی آر کے درجنوں سینئر افسران کو اپنے عہدوں سے اس لئے ہٹایا ہے کہ اُنہوںنے مبینہ طورپر اربوں روپے کا خزانہ کا نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوںنے ٹیکس اور کسٹمز ڈیوٹی چوری کرانے میں مددکی۔ چند سال پہلے نیب کی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملک میں روزانہ کم سے کم دس ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے ۔ بجلی کی چوری اور گیس چوری میں کھربوں روپے کا قومی خزانے کو نقصان ہوتا ہے۔ یہ خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں خود پانی و بجلی کے وزیر کہتے ہیں کہ اربوں کی بجلی چوری کرائی جارہی ہے۔ کوئی ایسا سرکاری ادارہ نہیں ہے جس سے اربوں روپے سالانہ سے کم کی لیکیج نہیں ہو رہی ہے۔ جب یہ صورت حال ہو تو قومی خزانہ کیسے بھرے گا اور ترقی کیلئے فنڈز کہاں سے آئیں گے؟ ایک ہی آپشن بچتا ہے کہ اندرون ملک اور بیرون ملک سے قرضے لے کر ملک چلایا جائے ۔ ممتاز معیشت دان قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ اب حکومت کا کام صرف یہ رہ گیا ہے ۔ مزید قرضے لیے جائیں تاکہ پہلے لئے گئے قرضوں کو واپس کیا جاسکے۔ ترقی کیلئے تو رقم بھی نہیں ہے۔ سوال یہ کہ اس صورت حال کو کیسے سنبھالا جائے ۔ یہاں ایک بلا امتیاز احتساب کون کرے گا تو دنیاکا کوئی ملک جمہوری ہو یا غیرجمہوری احتساب کے بغیر کیسے چلا یا جاسکتا ہے۔ یہاں تو نرالہ دستور ہے بدعنوانی اور کرپشن کے کسی مقدمے کا پتہ نہیں چلتا کہ وہ درست ہے یا نہیں کیوں کہ ایک دم سیاسی انتقام کا نعرہ لگا کر بدعنوانی کے مقدمے سے ہوا نکال دی جاتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ آخر یہ تماشہ کب ختم ہوگا؟ قومی خزانہ کو لوٹنے کا یہ دھندہ زور پکڑ رہا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ احتساب کرنے والے ادارے بے بس ہیں یا پھر وہ بھی اس دھندے میں شراکت دار بن گئے ہیں۔ ٭٭٭٭٭