اگست کے وسط میں متحدہ عرب امارات جانا ہوا ۔ وہاں ہمارے دوست اور میزبان سرمد خان کے ساتھ دوبئی میں پاکستان ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں جانا ہوا تو پتہ چلا کہ ممتاز شاعراور کالم نگار برادرم خالد مسعود خان بھی دبئی آ رہے ہیں۔ خالد مسعود خان کے مشاعرے میں تو شرکت نہ کر سکے کہ ان کے مداحین نے ایسی یلغار کر دی کہ منتظمین کو ہال کے دروازے ہی بند کرنے پڑے ۔ خالد صاحب سے البتہ دو روز بعد ان کے ہوٹل میں ملاقات ہوئی۔ سرمد خان ہمراہ تھے۔ خالد بھائی سے گپ شپ ہوئی ، انہوں نے بتایا کہ تین ستمبر کی شام ملتان میں ریشم دلانِ ملتان کانفرنس منعقد ہورہی ہے۔ ریشم دلان ِملتان کی ترکیب مجھے بہت اچھی لگی، منفرد اور میٹھی ۔ملتان جا کر رہنے اور ملتانیوں سے ملنے کا موقعہ ملے تو ہر ایک یہی کہے گا کہ وہ اپنے مشہور زمانہ آموں کی طرح میٹھے اور اپنے سوہن حلوہ جیسے پرلطف ہیں۔ ملتان کا اپنا خاص قسم کا سحر ا ورمکینوں کا رسیلا پن ہے جو سخت ترین گرمی کے باوجود دور دراز سے لوگوں کو ملتان کھینچ لاتا ہے۔ خالد بھائی نے بتایا کہ اس کانفرنس میں ملتان اور سرائیکی وسیب کے مختلف حوالوں سے مضامین (Papers)لکھوائے جاتے ہیں۔ یہ مضامین یا ان کے اقتباسات تقریب میں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں، مگر خاص بات یہ کہ ان مضامین کو پہلے سے منگوا کر کتاب چھاپ دی جاتی ہے جو کانفرنس میں شرکا کو مفت تقسیم کی جاتی ہے۔ ملتان ہمارے سرائیکی وسیب کا چہرہ ہے ، سرائیکی حساب سے’’منہ متھا‘‘ سمجھ لیں ،ملتان دراصل وسیب کا قدیم ترین ، تاریخی اور سماجی سیاسی اعتبار سے بھی اہم ترین شہر ہے۔ یہ بڑا مردم خیز خطہ ہے، بڑی بڑی نامورسیاسی، مذہبی، علمی، ادبی شخصیات یہاں سے نکلیں، پاکستان اور دنیا بھر میں نام کمایا۔ملتان سے ہم خاکوانیوں کا بڑا گہرا رشتہ ہے۔ کوئی تین صدی قبل افغان صوبہ ننگرہار کے علاقہ خوگیانی سے پٹھان جنگجو منزلوں پر منزلیں مارتے ملتان پہنچے تھے۔ کچھ احمد شاہ ابدالی (بابا ابدالی)سے پہلے، کچھ ان کے ساتھ اور بعد میں بھی۔بخاری، گیلانی، شیرازی، ترمذی کی طرح افغان علاقہ خوگیان کی نسبت سے یہ پٹھان خوگیانی کہلائے جو بعد میں خوگانی اور پھر خاکوانی بن گیا۔ ابدالی کے بعد ملتان پر پٹھانوں کی حکومت رہی، خاکوانی اور سدوزئی حاکم رہے۔ آخری نواب مظفر خان سدوزئی شہیدکوئی دو صدی قبل سکھوں سے لڑتے ہوئے اپنے کئی بیٹوں سمیت شہید ہوگئے۔نواب مظفر کے ساتھ کئی خاکوانی وزرا اور جنگجو بھی شہید ہونے والوں میں شامل تھے۔ملتان پر سکھوں کا قبضہ ہو گیا، انہوں نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ پٹھانوں کے دیگر قبائل کی طرح خاکوانی بھی بکھر گئے۔ کچھ نے ریاست بہاولپور کا رخ کیا، جو سکھوں کے قبضے سے آزادتھی ، بعض ڈیرہ اسماعیل خان کی طرف نکل گئے ۔ ہمارے اجداد نے بہاولپور، احمد پورشرقیہ کا رخ کیا۔ ملتان سے اپنے اس قدیمی تعلق اور ریشم دلان ِ ملتان کانفرنس کے شاندار علمی پراجیکٹ سے جڑنے کی خاطر میں نے مضمون لکھنے کی ہامی بھر لی۔سوچا انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل ہوجائوں۔ پاکستان واپس آ تے ہی دفتری، صحافتی مصروفیت میں گھر گیا۔ مضمون شائد نہ لکھا جاتا۔ خالد مسعود خان جس کانام ہے، وہ کوئی عام آدمی نہیں، دیو ہزار دست سمجھیں۔ بیک وقت کئی کام کرنے اور ہر کام کو کمال خوش اسلوبی سے کرنے کا ہنر انہیں کمال آتا ہے۔ انہوں نے فالو آپ کیا۔ دو تین بار میسج بھیجئے اور ان میں ایسی محبت گھلی تھی کہ ایک رات میں نے دو بجے تک بیٹھ کر اپنا مضمون لکھ ڈالا، انہیں فوری واٹس ایپ بھی کر دیا۔ صرف چند دنوں کے بعد مجھے واٹس ایپ میں کتاب کے ٹائٹل اور مضامین کی فہرست کی تصویر ملی توپتہ چلا کہ کتاب چھپ چکی ہے اور خاکسار کا مضمون بھی اس میں شامل ہے۔ تین ستمبر کی شام ملتان ٹی ہائوس میں پانچویں ریشم دلان ِملتان کانفرنس ہوئی۔ کیا شاندار تقریب تھی اور کیا باذوق سامعین تھے۔ تین ساڑھے تین گھنٹے تک گفتگو چلتی رہی، کئی نہایت عمدہ ، پرمغز مقالے پڑھے گئے، بعض تقریریں بوجوہ طویل بھی ہوگئیں، ہال کھچا کھچ بھرا تھا، ایک بھی سیٹ مجھے خالی نظر نہیں آئی۔ ان میں سے کوئی بھی اٹھ کر نہیں گیا، سب نہایت توجہ اور محویت سے تقریریں سنتے رہے۔ ان میں اٹھارہ انیس سال کے لڑکوں سے لے کر نوے سالہ بزرگ تک سب شامل تھے۔ خوشی ہوئی کہ ایسے سامعین بھی آج کل موجود ہیں۔ ریشم دلان ِ ملتان کی اصطلاح ملتان کے سابق کمشنر زاہد سلیم گوندل صاحب کی وضع کردہ ہے، انہی کی سرپرستی میں پہلی کانفرنس ہوئی، ایک ایسا سلسلہ قائم ہوا، جس کی پانچویں کڑی تین ستمبر کو جڑی ۔ ان شااللہ یہ سلسلہ آگے بڑھے گا ۔ زاہد سلیم گوندل صاحب نے بڑی عمدہ تقریر کی، وہ ملتان میں کئی سال رہے، ملتان ٹی ہائوس بنانے میں ان کا بڑا اہم کردار ہے۔ ملتان ٹی ہائوس کا بننا بھی خالد مسعود، ان کے یار دیرینہ شاکر حسین شاکر اور دیگر احباب کی متواتر کوشش کا نتیجہ ہے۔ زاہد سلیم گوندل کمشنر تھے، انہوں نے اس پراجیکٹ میں ذاتی دلچسپی لی اور ملتان آرٹس کونسل کے عقب میں ملتان ٹی ہائوس کی نہایت حسین ، باوقار عمارت بنا ڈالی۔ نیچے بہت خوبصورت کیفے ہے، اوپر ایک سو ساٹھ نشستوں پر مشتمل آڈیٹوریم ۔ کیفے کو آرٹسٹک اور کلچرل ٹچ دیا گیا ہے۔ ملتان جانے کا اتفاق ہو تو اس کیفے میں چائے ضرور پیجئے گا۔ وہی لطف آئے گا جوپاک ٹی ہائوس لاہور کا خاصہ ہے۔ ملتان کے موجودہ کمشنر عامر خٹک نے بھی اس پراجیکٹ میں بھرپور دلچسپی لی ، اس کانفرنس کو کامیاب بنانے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ سابق ڈپٹی کمشنر عامر کریم نے بھی اپنی یادیں تازہ کیں۔ انتظامیہ اور سرکار دربار سے میرا کبھی رشتہ نہیں رہا، ملتان کے ان علم دوست بیوروکریٹس نے البتہ متاثر کیا ۔ اگر انتظامی افسران اسی طرح شہر کی علمی، کلچرل زندگی میں اپنا حصہ ڈالیں تو انہیں جانے کے بعد بھی یاد رکھا جائے گا۔ مجھے اچھا لگا کہ ملتان ٹی ہائو س کے آڈیٹوریم کا نام زاہد سلیم گوندل کے نام پر رکھا گیا حالانکہ وہ ملتان سے جاچکے ہیں،کوئی سرکاری فائدہ بھی نہیں پہنچا سکتے۔ مخالد مسعودخان وغیرہ نے مگر وضع داری کا مظاہرہ کیا اور زاہد گوندل کی خدمات کے اعتراف میں ہال کو ان کا نام دیا۔ تقریریں عمدہ تھیں، کتاب میں چھپے مضامین پڑھنے کے قابل ہیں۔ ڈاکٹر اسد اریب ملتان کے بزرگ ادیب ، دانشور ہیں، کئی کتابوں کے مصنف۔ بڑے نستعلیق بذرگ ہیں، ان کی گفتگو میں کمال کی شیرینی تھی۔مجھے لگا کہ امروہی ہیں، کسی نے بتایا کہ بدایوں سے تعلق رہا ہے۔ ممتاز ادیب، ٹی وی ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید کی تقریر سننے سے تعلق رکھتی تھی۔ اصغر صاحب نے ایک دلچسپ نکتہ بیان کیا کہ قدیم شہروں میں تین خصوصیات مشترک ہوتی ہیں ، وہاں لائبریریاں ہوتی ہیں، چائے خانے اور قصہ گو حضرات۔ قصہ گو سے انہوں نے مکالمہ کرنے والے بھی مراد لئے۔ پھر انہوں نے ان حوالوں سے ملتان کی قدیمی، تہذیبی جھلکیوں کو بیان کیا۔ مجھے جون ایلیا مرحوم کا فقرہ یاد آیا، جو منفرد شاعر برادرم سعود عثمانی نے سنایا تھا کہ سمندروں کے کنار ے آباد شہروں میں معیشت اور کاروبار پنپتا ہے جبکہ دریائوں کے کنارے آباد شہروں میں تہذیب فروغ پاتی ہے۔ مختار پار س عمدہ نثر نگار ہیں، انہوں نے دلچسپ مضمون پڑھا۔ اس تقریب کے صدر اکادمی ادبیات پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر یوسف خشک تھے۔ ڈاکٹر صاحب ممتاز ماہر تعلیم اور دانشور ہیں۔ ان سے میری پہلی ملاقات ہے، بہت اچھا لگا۔ نہایت سلجھے ہوئے، شائستہ اور منکسر شخص ہیں۔ بڑی عمدہ گفتگو کی اور ملتان کے حوالے سے تحقیق کرنیوالوں کے لئے کئی آفرز بھی کیں۔ امید ہے کہ نوجوان ملتان سکالرز ان سے استفادہ کریں گے۔ ڈاکٹر یوسف خشک نے ایک مزے کی بات کہی کہ سرائیکی تو’’ لینگووا فرانکا ‘‘ہے یعنی وہ زبان جو ملک بھر میں بولی جاتی ہے، ان کا اشارہ اس طرف تھا کہ سرائیکی بولنے والے ملک کے چاروں صوبوں میں موجود ہیں۔ ڈاکٹر اسد اریب نے اپنی تقریر میں برسبیل تذکرہ یہ ذکر کیا کہ چونکہ تقریب پہلی منزل پر آڈیٹوریم میں ہے، اس لئے اسلم انصاری صاحب جیسے بزرگ ادیب چاہیں بھی تو سیڑھیاں چڑھ کر نہیں آ سکتے، اگر نیچے ہوتی تو وہ شریک ہوجاتے۔ خالد مسعود نے ترنت جواب دیا کہ ہم لفٹ لگانے کا سوچ رہے ہیں۔مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اگلی کانفرنس سے پہلے ملتان ٹی ہائوس میں لفٹ بھی لگی ہوگی۔ خالد مسعود خان کی سب سے اچھی بات مجھے یہ لگی کہ ملتان ان کے اندر بسا ہوا ہے، کسی بھی قسم کے تعصب سے بے نیاز اپنے شہر کی محبت میں رچے بسے ہیں۔ ان کی تحریروں میں ملتان بولتا ہے، ان کی ذات میں بھی ملتان گندھا ہوا ہے۔ ملتان میں ادیبوں شاعروں کے لئے ٹی ہائوس بنانا اور اب ہر سال ریشم دلان ِ کانفرنس کا انعقاد کرانا غیر معمولی کاوش ہے۔ یہ اداروں اور تنظیموں کے کام ہیں جو خالدمسعود اور شاکر حسین شاکر کی دو رکنی ٹیم کئے جارہی ہے۔ کانفرنس میں سٹیج پر بیٹھے میں سوچ رہا تھا کہ ریشم دلان ِ ملتان کی اصطلاح زندہ دلان ِ لاہور کی طرز پر ہے۔ لاہور میں بھی ہر سال زندہ دلان ِ لاہور کانفرنس ہونی چاہیے، جس میں لاہور کی تاریخ، تہذیب، علم وادب، کلچر پر اسی انداز کے شاندار مضامین لکھوائے جائیں۔ کاش کہ ملتان کی طرح لاہور میں بھی ایسا سلسلہ شروع ہو۔