ملک میں سیاسی درجہ حرارت میں کمی کے بجائے خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ ہمیں اختیارات اور سیاست کی ساخت کو سمجھنا ہوگا دوسری طرف سیاسی جماعتوں کے اکثریتی کارکنان، سامراجی سیاست کی تاریخ نہیں جانتے بلکہ ان کے نزدیک سیاسی جماعت میں کسی شخصیت کا مقبول ہونا، اور اس کی تقاریر یا موروثی سیاست کے طفیل حاصل ہونے والی گدی پر بیٹھی شخصیت کا ہر اچھا بُرا فعل اور اس کا دفاع و حمایت کرنے کے لئے کچھ بھی کرنا دراصل سیاست کہلاتا ہے۔ سیاست کی ایک طویل اور پیچیدہ تاریخ ہے جو قدیم زمانے سے شروع ہوئی۔ یہ وقت کے ساتھ ترقی کرتا رہا اور انسانی معاشرے کا ایک لازمی حصہ بنا۔ لفظ سیاست یونانی لفظ پولیس سے آیا ہے، جس کا مطلب شہری ریاست ہے۔ قدیم یونان میں، شہری ریاست سیاسی زندگی کا مرکز تھی۔ پولیس شہریوں کی ایک خود مختار برادری تھی جو ایک مشترکہ ثقافت اور زبان کا اشتراک کرتی تھی۔ یونانی جمہوریت اس خیال پر مبنی تھی کہ سیاسی عمل میں تمام شہریوں کی یکساں آواز ہو۔ وقت کے ساتھ، پولیس کا تصور وسیع اور ترقی پذیر ہوا۔ سلطنتوں اور حکومتوں کا عروج زیادہ پیچیدہ سیاسی ڈھانچے کی ترقی کا باعث بنا۔ یورپ میں جاگیردارانہ نظام ابھر کر سامنے آیا جس میں بادشاہوں اور سرداروں کو عام لوگوں پر غلبہ حاصل تھا۔ کیتھولک چرچ نے بھی قرون وسطی کے دوران سیاست میں اہم کردار ادا کیا تھیا کریسی نے سیاست کے نئے اصول وضع کئے۔کئی ایسے ممالک ہیں جہاں آج بھی سیاست پر سخت پابندی عائد ہے۔ نشاۃ ثانیہ نے سیاست اور فرد میں نئے دور کی نشاندہی کی۔ 17 ویں اور 18 ویں صدی میں روشن خیالی نے انفرادی حقوق اور آزادیوں کی اہمیت پر مزید زور دیا۔ جان لاک، جین جیکس روسو اور تھامس ہوبس جیسے مفکرین کے خیالات نے جدید سیاسی نظریے کی بنیاد رکھی۔ انیسویں صدی میں قوم پرستی کا عروج ہوا اور قومی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا۔ صنعتی انقلاب نے معاشرے اور معیشت میں نمایاں تبدیلیاں لائیں، جس کے نتیجے میں لبرل ازم، قدامت پسندی اور سوشلزم جیسے نئے سیاسی نظریات ابھرے۔ 20 ویں صدی میں دو عالمی جنگیں، سرد جنگ، اور مشرقی یورپ میں کمیونزم کا خاتمہ سمیت اہم سیاسی ہلچل کا سامنا ہوا۔ گلوبلائزیشن کے عروج اور دنیا کے بڑھتے ہوئے باہمی ربط نے سیاسی منظر نامے کو مزید تبدیل کر دیا آج، سیاست ایک پیچیدہ اور کثیر الجہتی میدان ہے جس میں حکمرانی اور سفارت کاری سے لے کر سماجی سرگرمی اور کمیونٹی آرگنائزنگ تک ہر چیز کا احاطہ ہے۔ تشدد پوری تاریخ میں سیاست کا ایک بد قسمت پہلو رہا ہے۔ انقلابات اور بغاوتوں سے لے کر جنگوں اور دہشت گردی تک، تشدد کو سیاسی مقاصد کے حصول کے ذریعہ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ تاہم، سیاست میں تشدد کے نفسیاتی اثرات اس کے جسمانی نتائج سے کہیں زیادہ ہیں جب افراد کو تشدد یا تشدد کے خطرے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو، وہ کمزوری اور کنٹرول کھونے کا احساس محسوس کرتے ہیں۔ اس سے اضطراب، افسردگی، اور پوسٹ ٹرومیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (پی ٹی ایس ڈی) کے احساسات پیدا ہوسکتے ہیں۔ سیاست کے منفی استعمال سے لوگوں کی نفسیاتی فلاح و بہبود پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ تشدد کے استعمال نے خوف اور غیر یقینی کا احساس پیدا کیا ہے، جس میں افراد مسلسل حملے کے خطرے میں رہتے ہیں۔ نفسیاتی تشدد جسمانی تشدد کی طرح ہی نقصان دہ ہے، لیکن اکثر زیادہ لطیف اور پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔ اس میں ڈرانے دھمکانے، دھمکیوں اور ہرا سانی جیسے کام شامل ہیں، اور اس کے نتیجے میں جذباتی اور نفسیاتی نقصان ہوسکتا ہے۔ سیاست میں نفسیاتی تشدد کی مثالوں میں رائے عامہ کو کنٹرول کرنے یا اس میں ہیرا پھیری کرنے کے لئے حکومتوں کی طرف سے پروپیگنڈا اور غلط معلومات کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ حمایت حاصل کرنے یا مخالفت کو دبانے کے لئے سیاستدانوں کی طرف سے خوف پھیلانے کے ہتھکنڈوں کا استعمال نفسیاتی تشدد کی ایک اور شکل ہے سیاست میں ساختی تشدد کی مثالوں میں استعمار اور سامراج کی وراثت شامل ہے، جس کے نتیجے میں دنیا بھر کے بہت سے ممالک میں معاشی اور معاشرتی عدم مساوات جاری ہے مقامی لوگوں جیسے اقلیتی گروہوں کی مسلسل پسماندگی ساختی تشدد کی ایک اور شکل ہے۔ حیران کن طور پر سیاست میں تشدد کا ایک اور نفسیاتی کردار یکجہتی اور با اختیاری کا احساس بھی پیدا کرنا ہے۔ جب افراد تشدد کی کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں تو، وہ وابستگی اور مقصد کا احساس محسوس کرتے ہیں۔ تاہم، تشدد کے جسمانی اور نفسیاتی نتائج تباہ کن ہیں، افراد اور معاشروں کو طویل مدتی اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے سیاسی رہنماؤں کے لئے ضروری ہے کہ وہ تشدد کے اثرات کو تسلیم کریں اور سیاسی تنازعات کے پرامن حل کے لئے کام کریں۔ ملک میں جاری سیاسی درجہ حرارت کی کمی کے لئے کسی نہ کسی جماعت یا ادارے کو پہل کرنی چاہیے تھی۔ مملکت اس بدترین صورت حال میں تنازعات و گرما گرمی کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ تحمل مزاجی کے ساتھ مقتدر قوتوں کو اپنا اپنا آئینی کردار ادا کرنا چاہے ، اپنی حدود سے متجاوز ہونے کے نقصانات پہلے ہی کافی بگاڑ پیدا کر چکے ہیں۔ جذباتیت اور انا پرستی کے خول کو توڑنے کے لئے سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو سقوط ڈھاکہ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔جو تفریق آج سیاسی بحران اور اپنی اپنی سمت کو درست سمجھنے کی وجہ سے آئینی اداروں میں بھی پیدا ہوچکی ہے، اس میں واضح نظر آرہا ہے کہ ملک کی سلامتی و بقا کو مقدم رکھنے کے بجائے ضد اور جذبات کا خول اوڑھاگیا ہے ۔ باشعور حلقوں کو آگے بڑھنا ہوگا اور ثالث بن کر غیر سیاسی قوتوں کے اثر نفوذ کو کم کرنے کے لئے مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔