منی پور سانحے کو ایک سال گزر چکا ہے مگر مظلوم عوام کے زخم تاحال تازہ ہیں، ایک سال گزر جانے کے بعد بھی منی پور میں نفرت کی آگ بجھ نہ سکی۔منی پور میں عیسائیوں کے خلاف پر تشدد واقعات میں مبینہ طور پر 92 افراد ہلاک، 302 زخمی اور تقریباً 30 ہزار سے زائد بے گھر ہو ئے تھے۔ اس بھارتی ریاست میں فسادات کا آغاز اس وقت ہوا جب کوکی قبائل نے میتی قبائل کی طرف سے سرکاری قبائل کا درجہ دینے کے مطالبات کے خلاف احتجاج کرنا شروع کر دیا، ہندو مذہب رکھنے والے کوکی قبائل میانمار سے یہاں آئے، جب کہ عیسائی مذہب کے میتی قبائل صدیوں سے یہاں رہائش پذیر ہیں، ان فسادات میں مودی کے سیکیورٹی فورسز نے کوکی قبائل کا ساتھ دیا۔کوکی برادری کے خلاف ریاستی پولیس نے ٹارگٹڈ حملے کیے، سینکڑوں گھروں کونذر آتش کر کے بھی مودی سرکار نے چین کا سانس نہیں لیا،کئی روز تک منی پور اور گرد و نواح میں انٹرنیٹ سروس معطل رہی۔ مودی سرکار کی طرف سے تمام فورسز کو احتجاج کرنے والے شہریوں کو گولی مارنے کا حکم دیا گیا، 365 دنوں میں 225 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ 50 ہزار سے زائد بے گھر کیے گئے، جو لوگ فسادات کے باعث بے گھر ہوئے اب بھی واپس جانے سے ڈر رہے ہیں۔ مودی سرکار نے ریاست میں انٹرنیٹ سروسز تقریباً 30 لاکھ آبادی کے لیے 5 دنوں تک معطل کر کے دفعہ 144 کا نفاذ کیا۔ان 365 دنوں میں، اس کی دو سیٹوں پر لوک سبھا کا الیکشن ہوا ہے، ان میں سے ایک بھارت کا واحد حلقہ ہے جس میں دو مراحل میں ووٹ ڈالے گئے جس سے وہاں کی کشیدہ صورت حال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ان 365 دنوں میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی نہ ہی عوام کے لیے امن آیا ہے، رہائشیوں کو اب بھی گولیوں کی گونج سنائی دے رہی ہے۔منی پور سانحہ کو ایک سال مکمل ہونے کے باوجود وہاں کی مظلوم عوام کو تاحال انصاف نہیں مل سکا ہے، مخالفین کا کہنا ہے کہ منی پور میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے والی مودی سرکار کس منہ سے وہاں کے عوام سے ووٹ کا مطالبہ کرتی ہے۔ منی پور میں کوکی اور میتی قبیلے کے درمیان نسلی کشیدگی کی تاریخ پرانی ہے۔ پہاڑوں پر رہنے والے اور نسبتاً غریب کوکی افراد عیسائی ہیں جبکہ وادی میں رہنے والے اور نسبتاً خوش حال میتی قبیلے کی اکثریت ہندو ہے۔ان کے درمیان ہونے والی کشیدگی عموماً زمین کے تنازعوں پر ہوتی تھی اور اس نے شاید ہی کبھی مذہبی رنگ اختیار کیا ہو۔ لیکن منی پور کے معدنیات سے مالا مال خطے اور جنگلات تک رسائی کے لیے کارپوریٹ دنیا نے کوئی نہ کوئی حکمت عملی بنا ہی لی۔ بھارتی ریاست منی پور کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ کوکی قبیلے سے تعلق رکھنے والی دو خواتین کو ہجوم کی جانب سے برہنہ کرکے پریڈ کروانا اور ان کے ساتھ زیادتی کرنا ’چند شرپسندوں کا کام ہے جو ہر ریاست میں موجود ہوتے ہیں‘۔اگر منی پور کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے استعمال کیے جانے والے الفاظ کوہی درست سمجھا جائے تو پھر دہلی کی بس میں نربہیا سے زیادتی اور اسے قتل کرنے کے جرم میں پھانسی پانے والوں کو بھی ’شرپسند‘ ہی کہا جائے گا۔ اسی طرح زیادتی کے الزام میں قید سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والا ہندو سادھو بھی ’شرپسند‘ ہی ہوگا۔ کٹھوعہ کے ایک مندر میں 8 سالہ آصفہ بانو کا ریپ کرنے والے مبینہ ’شرپسندوں‘ پر تو ہندوتوا کے حامیوں نے خوشیاں منائی تھیں۔ سب سے بڑھ کر گجرات میں ریپ کرنے والے 11 سزا یافتہ مجرموں کو گزشتہ سال بھارت کے یومِ آزادی کے موقع پر جیل سے رہا کردیا گیا جبکہ اسی روز وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعے پر ہندوستانی خواتین کے تحفظ کے بارے میں اپنے عزم کا اظہار کیا تھا۔ تاہم رہائی پانے والے ان افراد میں کوئی بھی ’شرپسند‘ نہیں تھا کیونکہ ہندوتوا حامی تو انہیں اونچی ذات کے اور ’سنسکار‘ والے برہمن قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا استقبال لڈوؤں سے کیا گیا۔ شاید بی جے پی سے تعلق رکھنے والے منی پور کے وزیر اعلیٰ بیرن سنگھ کو اب بلقیس بانو سے زیادتی اور ان کے خاندان کے افراد کو قتل کرنے والوں کے لیے کوئی نیا لفظ سوچنا ہوگا۔ بیرن سنگھ نے یہیں پر بس نہیں کی۔ انہوں نے خواتین کی ایک ریلی میں شرکت کی اور واقعے کی خوفناک ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس سے ریاست کی بدنامی ہوئی ہے۔ اگر اس واقعے کی ویڈیو نہ بنتی تو شاید اس پر شرمندہ ہونے کا بھی ہوئی سوال نہ پیدا ہوتا۔ مودی نے کہا کہ ’ہر ریاست چاہے وہ راجستھان ہو یا چھتیس گڑھ، اسے خواتین کی حفاظت کرنی چاہیے۔ لیکن مودی نے صرف ان ہی دو ریاستوں کا نام کیوں لیا؟ شاید اس وجہ یہ ہے کہ ان دونوں ریاستوں میں کانگریس کی حکومت ہے اور یہاں کچھ ماہ بعد انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان انتخابات کا نتیجہ اگلے سال مودی کے انتخاب پر اثر انداز ہوگا۔