چند دن قبل مجھے ثقل ِسماعت کا محض شبہ ہوا مگر بعد ازاں میں از خود اس کا گرفتار ہوتا چلا گیا۔پہلے پہل تو میں ایک شاک کی کیفیت سے گزرا مگر اب نارمل ہوتے ہوتے شانت سا ہو کر اللہ میاں کا شکر گزار بندہ بن گیا ہوں۔" بہرا " ہو کر یا بن کر ہزار مصیبتوں سے آزاد ہو گیا ہوں۔اس سے پیشتر اگر میرے بارے میں کوئی ناگوار تبصرہ کرتا تو میرے کان کھڑے ہو جاتے اور نتھنے ہلنے بلکہ کانپنے لگتے۔بسا اوقات ہاتھا پائی کی خواہش بھی دل میں سر اٹھانے لگتی۔ایک بار تو جذباتی ہو کر ہاتھ ہوا میں بلند بھی ہو گیا تھا اور منزل ِمقصود کے بالکل قریب تھا۔بعضوں کی نظریں پردہ اٹھنے کی منتظر تھیں مگر کسی نادیدہ طاقت نے ہمارا ہاتھ نیچے گرا دیا۔اب یہ معاملہ نہیں ہے۔گویا تاریخ کا دھارا ہی تبدیل ہو گیا ہے۔ایک ثقلِ سماعت کے شبے سے ہوتا ہوا معاملہ اب خود ساختگی (جیسے خود ساختہ جلاوطنی ہوتی ہے ویسے ہی ہماری بھی خود ساختگی کا معاملہ ہے) کے دائرے میں داخل ہو چکا تھا۔ اب میرے لیے یہ ثقلِ سماعت مکمل نعمت ثابت ہو رہی ہے۔وہ باتیں جو میرے مطلب کی نہیں ہوتیں یا جن کو سننا ہی نہیں چاہتا تھا اور اگر سن لیتا تو اس کا جواب چیخ چیخ کر دیتا تھا۔اب وہی باتیں کہہ کر اگلا بندہ شرمندہ شرمندہ سا ہو جاتا ہے کہ بیچارہ بولاہے خواہ مخواہ اس کو بے نطق سنا رہا ہوں حالانکہ وہ ساری باتیں سن بھی رہا ہوتا ہوں اور ان کا مناسب ترین جواب بھی میرے پاس موجود ہوتا ہے مگر چپ رہتا ہوں اور کہنے والوں کی حالت سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔اسی ثقلِ سماعت کی شکایت سے اگلے دن میری ایک ڈینٹسٹ کے پاس اپائنٹمنٹ تھی اور میں عین وقت پر پہنچ چکا تھا مگر میں ذرا ریسٹ کر کے ڈاکٹر کے سامنے پڑے بسترِمرگ پر لیٹنا چاہتا تھا کہ ان کے ملازم کی آواز سنی ان سنی کر دی۔چار پانچ منٹ کے توقف کے بعد ملازم نے میرا نام دوبارہ پکارا تو تب بھی میں مزے سے کرسی پر دراز ہی رہا۔ڈاکٹر صاحب نے نوٹ کیا کہ دو دفعہ بلوانے کے باوجود مریض اندر نہیں آ رہا تو وہ تیزی سے کمرے سے باہر نکلے۔آگے میں کالے شیشوں والی عینک لگائے کرسی پر نیم دراز سا ہو کر آرام کر رہا تھا۔میرے پاس آئے اور میرا نام لیا۔میں نے اسی ثقل ِسماعت کے بہانے ان کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔انہوں نے میرا نام لے میرے بازو کو جھنجھوڑا تو میں نے کالے شیشوں والی عینک سے ذرا سی آنکھیں باہر نکالیں جیسے پوچھ رہا ہوں جی فرمائیے۔میں آرام سے اٹھا اور ڈاکٹر کی سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ملازم نے کہا مریض بولا لگتا ہے۔میں نے آرام سے وہاں وقت بھی گزارا اور علاج وغیرہ کروا کے واپس آ گیا۔ کسی کو کچھ نہ پتہ چلا کہ آخر میں کون ہوں؟۔ جب میں کلینک سے باہر نکل رہا تھا تو میں نے ملازم اور ڈاکٹر کی گفتگو سن لی۔ملازم کہہ رہا تھا کہ جو کالے شیشوں والی چڑھائے ہوئے تھا یہ بولا نہیں ہے۔یہ محمد حسین پنکھیاں والا ہے۔کالی عینک لگا کر اور بولا بن کر "واردات " کرنا اس کا طریقہ ہے۔ اگلے دن بیٹے کے داخلے کے لیے ایک سکول میں جانا تھا۔بیٹے کی خوشی دیدنی تھی وہ کہیں تڑکے ہی اٹھ بیٹھا تھا۔میں بہر حال اچھا خاصا دن چڑھنے کے بعد اپنے کمرے سے باہر آیا۔کالے شیشے والوں عینک لگائی اور سکول کی جانب روانہ ہو گیا۔وہاں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔لگتا تھا کہ شہر کی ساری جینٹری آج وہاں آ پہنچی ہے۔میں بیٹے کو ساتھ لے کر جینٹری کا رش چیرتا متعلقہ مقام تک پہنچ گیا۔متعلقہ آدمی میری دیدہ دلیری کا گرویدہ سا ہو گیا۔اٹھا اپنے کیبن سے باہر نکلا۔بیٹے کے کاغذات دیکھے بغیر اسے داخل کرنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔جب میں اپنا کام کروا کر وہاں سے باہر آنے کے لیے ہجوم میں سے راستہ بنا رہا تھا تو کہیں سے آواز آئی یہ بڑی توپ شے ہے اس نے یونہی آنکھوں پر کالے شیشوں کی عینک نہیں چڑھائی ہوئی اس کے پاس کوئی خاص نسخہ ہے۔ایک طرف سے بالکل آہستہ سی آواز آئی نہیں بھائی یہ محمد حسین پکھیاں والا ہے۔یہ سننا تھا کہ میں نے اپنی رفتار تیز کر لی اور وہاں سے باہر آ گیا۔ مجھے ثقل سماعت کا بہانہ بڑی مشکل سے ہاتھ آیا تھا اور میں اس کی کامیابی کو آزما چکا تھا۔لہذا اسے جاری رکھنا بہت مفید ثابت ہو رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ میرے آگے پیچھے میرے جیسے ہی لوگ پھر رہے ہیں۔پہلے تو مجھے شبہ ہوا کہ نہیں نہیں یہ میرا وہم ہے۔ہر ایک میں مجھے اپنا عکس نظر آ رہا ہے۔یہ اور لوگ ہیں میں اور ہوں۔پھر میں نے ان سب کو دیکھا کہ سب نے کالے شیشوں والی عینک چڑھا رکھی ہے۔کوئی انہیں بلاتا ہے تو آگے سے بولتے بھی نہیں۔اپنے آپ میں مگن سے دکھائی دیتے ہیں۔میں نے انہیں غور سے دیکھا ان کی حرکات و سکنات کا بغور مطالعہ کیا تو یقین ہو گیا انہیں میری طرح کی ثقل ِسماعت کی شکایت نہ ہو۔میری طرح کی ثقل ِسماعت کی شکایت کا مطلب تھا کہ وہ بھی میری طرح جان بوجھ کر بولے بنے ہوئے ہیں۔میں نے ایک کو آزمانے کے لیے اس کے کان میں آہستہ سے کہا محمد حسین ہو؟۔کچھ دیر توقف کیا کہ کوئی جواب آئے تو پورا نام محمد حسین پکھیاں والا لوں گا۔وہاں رش بھی تھا لہذا ذرا اونچی آواز میں کہا بھائی محمد حسین ہو؟۔آگے سے بالکل خموشی تھی بلکہ کسی قسم کا خوشگوار یا ناخوشگوار تاثر کے شائبے کے بھی دور دور تک آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔یہاں سے مطمئن ہو کر اگلے آدمی کے کان میں یہی سب کچھ کہا مگر کوئی جواب نہ آنے یک گونہ اطمینان ہو گیا اور میں نے اپنی ثقل ِسماعت کی پریکٹس کا کام جاری و ساری رکھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ میں جہاں جاتا ہوں وہاں سب نے کالے شیشے والوں عینک لگائی ہوئی ہے اور میری طرح وہ بھی اپنا کام نکال رہے ہیں۔میں اپنا کام نکال رہا ہوں مجھے کوئی پہچان پا نہیں رہا اور وہ اپنا کام نکال رہے ہیں اور انہیں کوئی پہچان نہیں رہا۔البتہ مجھے دھڑکا ہر وقت لگا رہتا ہے کہ کوئی کہہ ہی نہ دے یہ بولا نہیں ہے یہ تو بھائی محمد حسین پکھیاں والا ہے۔حکومتی سسٹم میں کالے شیشوں والی عینکیں لگائے بہت سارے محمد حسین پکھیاں والے پھر رہے ہیں میری طرح ان کو بھی کوئی پہچان نہیں پا رہا۔