گندم انسانی زندگی کی بنیادی ترین ضرورت ہے اور پاکستان جیسے غریب ملک کی 70 فیصد آبادی پیٹ بھرنے کے لیے صرف روٹی پر گزارا کرتی ہے۔امیر طبقات کے پاس تو کھانے کو اور بھی بہت کچھ ہے۔سچ ہے کہ جتنا پیسہ اور جتنی دولت ہے اتنے زیادہ امیروں کے ڈائٹ پلان انہیں خوار کیے رکھتے ہیں۔ بیشتر ڈائی پلان ہی ایسے ہیں جس میں کاربوہائیڈریٹس بند ہیں ،روٹی چاول بند ہیں، یہ بھی اللہ کا کوئی نظام ہے کہ غریب روٹی کے لیے صبح سے شام کر دیتا ہے اسے روٹی میسر آتی ہے تو وہ رج کے روٹی ہی کھاتا ہے۔اسے کبھی گندم سے الرجی نہیں ہوتی آٹے سے اس کا وزن نہیں بڑھتا ۔مجھے اپنی ایک گھریلو ملازمہ کی بات یاد آتی ہے بڑی عجیب بات کی اس نے کہا کہ "باجی اسی تے روٹی نال لی ایں پیٹ پرنا ہوندا اے۔ تسی لوگ تے ہور وی کئی کئی شیواں کھاندے او،یقین کریں اس کی اس بات پر میں ایک لمحے کو کانپ کے رہ گئی۔پیسے والا ہو تو کئی قسم کی خوراکیں کھاتا ہے۔ تازہ پھل ،خشک میوہ جات ،پروٹین ڈائٹ ،گوشت مچھلی مشرومز وغیرہ مزدور اور نادار طبقہ سب جسمانی مشقت کے بعد پیٹ بھرنے کو صرف روٹی کھا تا ہے۔ یہ آٹا اور روٹی غریب کا مسئلہ ہے۔آٹا کی قلت پڑے تو روٹی مہنگی ہو جاتی ،بس سمجھو غریب کو زندگی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ یہ آٹا اور روٹی ہی اس کی لائف لائن ہے۔گھروں میں کام کرنے والی اماں بشیراں نے اپنی نئی بہو جو اسی کی طرح گھروں میں ہی کام کرتی تھی کو ایک حکمت کی بات سمجھائی ۔’’دھئیے تنخواہ ملے تے اوکھے سوکھے ہو کے پورے مہینے دا آٹا خرید لیویں آٹا ہووے تو غریب بادشاہ اے , روٹی پک جاوے گی تے بنا شک مرچ کوٹ لو ،پیاج نال کھالوورج ہو جائے گا "یہ اس ملک کے غریب ترین طبقے کی کہانی اور غربت کے اس لیول پر 50 فیصد پاکستانی تو ضرور موجود ہے باقی کے سمجھیں 30 فیصد اس سے تھوڑے بہتر حالات میں ہوں گے جن کے گھروں میں سالن بن جاتا ہے .یہ تمہید اس لیے باندھی ہے کہ بتایا جا سکے کہ گندم کے خرید و فروخت اور بد انتظامیوں میں کک بیکس لینے والے با اختیار وزراء اور امرا نے غریب کے ساتھ دشمنی کی ہے اس ملک کے غریب کا حق کھایا ہے۔اہل اختیار کا گندم کے معاملے پر بدترین ،بد انتظامی اور بددیانتی کا مظاہرہ ،سیدھا پاکستان کے قریب عوام کا حق کھانا ان کو دھوکہ دینا اور ان کے حصے کا اپنی جیبوں میں بھرنے کے مترادف ہے۔گندم سکینڈل میں ہونے والی کرپشن نے 6کروڑ کاشکاروں کو ناقابل تلافی مال نقصان پہنچایا۔اہل اختیار نے اربوں کروڑوں کی کرپشن کر کے اپنی جیبیں بھریں لیکن پاکستان کا غریب کسان سیاست دولت اور ہوائے حرص و ہوس کے اس کھیل میں مارا گیا۔کسانوں کا ایک طبقہ وہ ہے جو قرض اٹھا کر زراعت کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔مہنگی کھاد مہنگی بجلی کے اخراجات ایسے متوسط کسانوں کی کمر توڑ کے رکھ دیتے۔اس کی ساری امیدیں اچھی فصل سے اور اس کے اچھے بھاؤ سے وابستہ ہوتی ہیں۔ان کی اگلے پورے سال کے اخراجات کا انحصار اچھی فصل پر اور اس کے اچھے داموں پر ہوتا ہے۔ان حالات میں کتنے کسان ہیں جو اگلے سال گندم کاشت کریںگے۔کسان نے گندم اگا کے معیشت مضبوط کی اور اسے باقاعدہ اس کی سزا دی گئی۔حکومت اور بیوروکریسی میں بیٹھے ہوئے گدھوں نے کسان کو ذلیل اور رسوا کر کے رکھ دیا ۔ چھوٹے کاشتکاروں کے پاس گندم کو سنبھالنے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا وہ اپنی گندم اونے پونے داموں بیچ چکے ہیں۔جنوبی پنجاب سے سب سے پہلے گندم کی فصل تیار ہوئی تھی اور اس وقت بھی ظاہر ہے کوئی خریدنے والا نہیں تھا ان کی گندم کو فلور مل والے اور مڈل مین خرید چکے ہیں۔کاشت کار کو اس میں فائدہ نہیں ہوا جب اس کو فائدہ نہیں ہوا اس نے کمائی نہیں کی تو وہ اگلی فصل کو اگانے کے قابل بھی نہیں ہوگا کیونکہ ایک فصل کو کاشت کرنے میں اس کی محنت اس کا پسینہ بہتا ہے۔اس کا روپیہ لگتا ہے اور وہ اس امید پر محنت کرتا ہے کہ فصل اچھی ہوگی اور اچھے داموںبکے گی تو اس کے گھر میں بھی خوشحالی آئے گی۔افسوس کہ پاکستان کے کسان کی محنت کرپشن کی نحوست اور بے برکتی سے ضائع ہو رہی ہے۔حیرت ہے کہ حکومت کے پاس وافر گندم کو کرنے کے لیے مناسب جگہ نہیں۔نجی شعبے میں جو مڈل میںن اور فلور مل والے ہیں وہ اونے پونے گندم خرید رہے ہیں وہ اسے ذخیرہ کررہے ہیںاور یقینا پاکستان کے تاجرانہ روایت کے مطابق وہ اس ذخیرہ اندوزی سے گندم اور آٹے کی قلت پیدا کریں گے اور پھر قلت کے دنوں میں مہنگی گندم بیچ کر پھر اپنے بینک بھریں گے۔لالچ اور بددیانتی کے اس خوفناک کھیل میں کھیتوں میں گندم اگانے والا کسان نقصان میں ہی رہ جائے گا۔ نجی شعبے میں گندم کو ذخیرہ کرنے والے فلور مل مالکان اور مڈل مین جب مہنگی گندم بیچیں گے تو آٹا مہنگا ہوگا ،روٹی مہنگی ہوگی پھر اپنی خوراک کا 90 فیصد بلکہ فیصد روٹی پر انحصار کرنے والا پاکستان کا 70 فیصد غریب شخص کہاں جائے گا؟جس کے حالات پہلے سے ہی اس قابل نہیں ہے کہ وہ دو وقت کی روٹی آسانی کے ساتھ افورڈ کر سکے۔گندم اسکینڈل میں کوئی مریخ کی مخلوق شامل نہیں جس کی سمجھ نہ آئے۔یہی حکمران ،اور بیوروکریٹس شامل ہیں اور ہر قسم کا مڈل مین جو اس دورانیے میں اس پروجیکٹ کا حصہ رہا اس شرمناک سکینڈل کا ذمہ دار ہے۔کروڑوں اربوں انہوں نے ہی کمائے ہیں اور اس میں شامل ایک ایک بندے کو اس انکوائری کا حصہ بنانا چاہیے۔یہ لوگ آنے والے دنوں میں مزید مہنگے آٹے اور مزید مہنگی روٹی کی وجہ بنیں گے ان غریب دشمنوں کو سخت سزائیں دینی چاہیں۔سوال یہ ہے کہ ان غریب دشمنوں اور ملک دشمنوں کو سزا ملے گی یا پھر ماضی کی طرح سب کچھ تحقیقاتی کمیٹیوں کے کھوہ کھاتے میں غرق ہو جائے گا؟