وہ دبئی میں بچوں کو سکول لے جانے والی وین چلاتا تھا اس نے مجھے بتایا ایک دن جب چھٹی ہونے پر بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر واپس آیا تو وین سے ایک پیکٹ ملا جس میں کچھ درہم چاکلٹ وغیرہ تھیں سنبھال لی صبح جب دوبارہ بچوں کو لے جا رہا تھا تو ہر بچے سے پوچھا کہ یہ تمہارا ہے سب نے نفی میں سر ہلایا۔ ایک بچہ غیر حاضر تھا اگلے دن جب اس بچے سے پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا مگر ساتھ کہا اسے ضائع کر دیں۔ پاکستان آیا گھر میں سب بچے موجود تھے بھائیوں بہنوں کے یونہی سو روپیہ پھینک کر اٹھایا اور پوچھا یہ کس کے ہیں تو تمام بچوں نے کہا میرے ہیں میرے ہیں۔ اگر ہمارا تعلیمی نظام شاندار ہے بہترین نصاب کا حامل ہے اور اساتذہ کرام جانفشانی سے پڑھا رہے ہیں تو پھر اس کے باوجود بھی ہمارا معاشرہ دنیا کا مثالی معاشرہ کیوں نہیںبن پا رہا۔ گزشتہ ماہ مانچسٹر سے میرے قریبی ملنے والی تین فیملیز آئیں۔ مانچسٹر جانے سے قبل بھی ان سے گھریلو مراسم تھے اور اکثر ان کے بچوں سے ملاقات ہوتی رہتی اس بار جب ان کے بچوں سے ملا تو گفتگو رویوں چال ڈھال میں زمین آسمان کا فرق دیکھا۔ کھوج لگانی شروع کی کہ ایسا کیسے ممکن ہوا مجید پرویز بتا رہا تھا ایسا وہاں جرم ہے اور ممکن ہی نہیں کہ آپ کا بچہ سکول نہ جائے ریاست آپ کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ جائے گی۔ کوئی بھی وجہ وہ تسلیم نہیں کرے گی۔ ما سوائے طبی بنیادوں پر کے اس کی بھی وہ پوری تحقیق کریں گے بچوں کے تعلیمی اخراجات ریاست برداشت کرے گی مجید بتا رہے تھے کہ کالج تک تعلیم فری ہے اور یونیورسٹی کی سطح پر آپ کے نمبر اہمیت رکھتے ہیں اگر اے پلس ہے تو آپ کی تعلیم بالکل فری ہے اگر کم ہیں اور آپ پڑھائی جاری رکھنا چاہتے ہیں تو حکومت آپ کو 26 ہزار پاؤنڈ دیتی ہے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب نوکری شروع ہوتی ہے تو حکومت اگر آپ سالانہ 26 ہزار پاؤنڈ سے زیادہ کما رہے ہیں تو اس میں سے تھوڑی سی کٹوتی شروع کر دے گی یہ تو ہے وہاں کی تعلیمی اخراجات کی سہولیات نصاب یا تربیت کیسی ہوگی وہ تو میں نے ان بچوں میں واضح ترین تبدیلیوں سے محسوس کیا۔ مجید کے بیٹے محی الدین جب وہ پاکستان میں تھا تو ایک سوال کے کئی کئی جواب دیتا فرفر بولتا مگر اب جب میں نے اس سے جو سوال کیا صرف اسی سوال کا ایک ہی مکمل جواب مختصر ترین الفاظ میں دیا۔ عمر برولا کے بیٹے موسی کے ساتھ کھانا کھانے کا اتفاق ہوا پہلے پہل تو وہ یہ سوچ رہا تھا کہ مجھے ان کی گفتگو پر کتنی توجہ دینی چاہیے صاف عیاں تھا کہ جیسے وہ سن ہی نہیں رہا پھر کھانا تناول کرنے کے انداز نے حیران کیا اور بے شمار مثالیں ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام قیام پاکستان کے وقت سے ہی اصلاحات کا متقاضی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی بہت ساری جگہوں پر ایسے واقعات ہوئے کہ سکولز گرا دیے گئے یا پھر بننے ہی نہ دیے گئے یہ سب کچھ ہر شہر کے مضافات دور دراز علاقوں میں ہوا اور وجہ یہ کہ شعور نہ آ جائے میرا دعوی ہے کہ آج کے دن تک ایسا کیا جا رہا ہے مگر طریقے مختلف اپنائے جا رہے ہیں اگر سوشل میڈیا اور کچھ جدید ٹیکنالوجی نہ آتی تو اس سے بھی بدتر صورتحال ہونی تھی آپکی ریلوے کو ٹرانسپورٹ مافیا نے کامیاب نہیں ہونے دیا اس پر کسی روز پھر سہی۔ ہر تنزلی کے پیچھے آپ کو چند مخصوص لوگوں کے مفادات نظر آئیں گے۔ بحث ہو رہی تھی نصاب اہم ہے یا استاد اچھا بہترین اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب سب سے پہلے اچھے استاد بنائے گا اور پھر وہی اساتذہ ایک قوم تخلیق کریں گے کیا ہمیں یاد نہیں کہ بچپن میں ہم کیسی تعلیم حاصل کرتے رہے اور کیسے اساتذہ تھے؟ آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا باہر گراؤنڈ میں بیٹھے پڑھ رہے تھے کہ ساتھ ہی دوسری کلاس بیٹھی تھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا استاد محترم کے ایک ہاتھ میں ریاضی کا خلاصہ پکڑا ہوا تھا جسے دیکھ کر وہ سائن بورڈ پر جو اٹھا کر ہم لوگ باہر بھی لے آتے تھے لکھ رہا تھا میں نے اپنے استاد سے اس کا تذکرہ کیا تو وہ مسکرا دیے حالانکہ وہ خود بہت ذہین ٹیچر تھے۔ سارا نصاب قصے کہانیوں اقوال زریں سے بھرا پڑا ہے۔ کئی طرز کے تعلیمی ادارے یہاں کام کر رہے ہیں اچھی بات ہے مگر ان سے نکلنے والے نوجوان پوری دنیا میں ہماری شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں ہمارے ہاں آج تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہے۔سکول چین کالج سسٹم چند مخصوص لوگوں کو اربوں پتی بنا چکا ہے نمبرز کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے ہمارے زمانے میں تین بچوں کے اتنے نمبر ہوتے تھے جتنے آج ایک بچے کے آ رہے ہیں۔ دھڑا دھڑ ڈگریاں اسناد دی جا رہی ہیں اور اوپر سے بدقسمتی کہ ہر پاکستانی ماں باپ کا خواب کہ گورنمنٹ کی نوکری ملے اور پھر جب ایسے ہی گورنمنٹ نوکری حاصل کرتے ہیں تو تب عوام کو پتہ چلتا ہے کہ یہ کس تعلیمی ادارے کی کارستانی ہے ہر کسی کا ایک ہی خواب ہوتا ہے کہ ڈاکٹر انجینیئر یا مقابلے کا امتحان دے کر کسی بڑے عہدے پر آئے تعلیم کو روزگار سے نتھی کر دیا گیا۔ معلومات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب نوکری بھی کہاں ملتی ہے پھر آ جا کے بیرون ملک نکلنے کی کوشش کرتے ہیں اگر ہم نصاب کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہیں تو ایک طوفان آجاتا ہے۔ ایسے الزامات لگا ہے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ!! آج ہم معاشی طور پر کہاں کھڑے ہیں اس بھولپن نے ہمیں تباہ کردیا ہم نرگسیت کا شکار ہیں ،ماضی پرست آگے بڑھنا یا آگے بڑھنے کے راستوں کا تعین کرنا ہمارے بس میں نہیں۔ جانے کیسے ہم اس حالت میں اس سیارے پر رہ رہے ہیں جہاں ہر کو ئی ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے کتنی ہی مثالیں ہیں ہمارے سامنے مگر خوف نے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کردیا ہے۔