احتجاج تو آئینی حق ہے مگر کیا راستے بند کر دینا بھی؟ تحریک انصاف نے اب احتجاج کا عجب طریقہ اختیار کیا ہے۔ لانگ مارچ توخیر اعلانیہ ہوتا ہے۔عوام الناس کو معلوم ہوتا ہے کہ کس وقت کس سڑک کی جانب نہیں جانا ہے۔ سکول کے بچوں کو گھر لے جانے والی گاڑیاں پہلے ہی سے متبادل راستے کا انتخاب کر سکتی ہیں یا پھر اُس مخصوص دن کے لیے اسکول کی انتظامیہ آن لائن کلاسز کا اہتمام کر لیتی ہیں۔ دو دن پہلے مگر عجیب ہوا۔ دوپہر ڈیڑھ بجے اچانک فیض آباد اور گرد و نواح کے علاقوں سمیت راولپنڈی میں جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر کے راستے بند کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ سکول سے چھٹی کا وقت تھا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ دوپہر دو بجے کے قریب وہی راستے بند ملیں گے جو اُس وقت روزانہ کھلے ہوتے ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلاکہ سکول کی گاڑیوں میں چھوٹے چھوٹے بچے گھنٹوں پھنسے رہے اور والدین کی جان دروازے پہ اٹکی رہی۔ نہ جانے کس نے تحریک انصاف کے رہنمائوں کو یہ بتایا تھا کہ اگر سکول کی گاڑیاں روک لی جائیں تو مرضی کی ایف آئی آر درج ہو جائے گی۔ پھر احتجاج بھی ایسا پُرزور نہیں ہے کہ جس کا اُن کی صحت پر اثر ہو جن کے خلاف یہ ہو رہا ہے۔ راولپنڈی میں دس پندرہ مقامات پر سو پچاس بندے اکٹھے ہوئے، چند ٹائروں کو آگ لگائی اور ٹریفک روک دی۔ آگ لگے ٹائروں اور رکاوٹوں کی حفاظت کے لیے مقامی انتظامیہ نے چند پولیس اہلکار بھی تعینات کر دیے تاکہ احتجاجی مظاہرین تسلی سے اپنا کام کر سکیں ۔ دس پندرہ مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کرنے سے سڑکیں بلاک ہو گئیں اور ٹریفک کا نظام درہم برہم ہونے سے پورا شہرتقریبا جام ہو گیا اور لوگ گھنٹوں سڑکوں پہ خوار ہوتے رہے۔اس پھُسپُسے احتجاج سے مقصد تو کچھ حاصل نہ ہوا البتہ لوگ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر ایک دوسرے سے جھگڑا کرتے دکھائی دیے۔ اگر واقعی احتجاج سے کچھ حاصل کرنا مقصد ہے تو پی ٹی آئی کو بہتر حکمت عملی کے ساتھ احتجاج کی کال دینا چاہیے تھی۔ ملک بند ہی کرنا تھا تو ایک رات پہلے پورے ملک میں ایک ساتھ کال دی جاتی ۔ لاکھوں کی تعداد میںمظاہرین سڑکوں پہ ہوتے۔ احتجاج کے باعث باقی لوگ گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ، سڑکوں پہ ہُو کا عالم ہوتا۔نظام زندگی ایک روز کے لیے معطل ہو جاتا۔ سڑکوں پہ احتجاج کے لیے نکلنے والے بھی تحریک انصاف کا ساتھ دے رہے ہوتے اور گھروں میں بیٹھنے والے بھی گھر بیٹھ کر مقصد کی حمایت کر رہے ہوتے۔ اتنا جاندار احتجاج ہوتا کہ دنیا بھر کے میڈیا کے لیے ایک خبر بنتی۔ لیکن یہاں تو پچاس پچاس کی ٹولیاں نکلیں ، چار چار پُرانے ٹائروں کا انتظام کیا اور لیجے ہو گیا احتجاج۔ ایک حیرت کی بات اور بھی ہے۔ تحریک انصاف وفاقی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے گھر سے نکلی تھی۔ ایسے میں اسے اسلام آباد کا رخ کرنا چاہیے تھا،وفاقی حکومت کو پریشانی میں ڈالنا چاہیے تھا یا پھر ان صوبوں میں جہاں اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے۔ ایسے میں پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ مڈبھیڑ ہونے کا خطرہ تھا۔تحریک انصاف کے قائدین نے مگر آسان راستہ اختیار کیا۔ اپنے ہی صوبوں میں احتجاج کر کے اپنی ہی حکومت کے خلاف احتجاج کا تاثر دے رہے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے کہ مجھے اپنے ہمسائے سے کوئی اختلاف ہو اور میں اسے بتائے بغیر اپنے ہی گھر میں بیٹھ کر بھوک ہڑتال کر لوں ، ہمسائے کی صحت پر اس سے کیا فرق پڑے گا۔آپ راولپنڈی کے ساتھ ساتھ پنجاب کے چار اور بھی شہر بند کر دیں اس سے وفاقی حکومت کو کیا فرق پڑے گا۔ پنجاب کے علاوہ احتجاج کا دائرہ پشاور، نوشہر اور مردان تک بھی بڑھا دیں تو اسلام آباد میں بیٹھے رانا ثناء اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ لہذا اپنے ہی صوبوں میں سڑکیں بند کر کے عوام کی مخالفت مول لینے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ عمران خان بارہا کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے اس لانگ مارچ کے لیے مہینوں منصوبہ بندی کی اور اس کے مختلف پہلووں پر غور کیا۔لیکن شاید عمران خان یہ غور نہ کر سکے کہ اگر اسی دوران انہیں ایک ایف آر درج کرانا پڑ گئی تو احتجاج کو کیا رنگ دینا ہے۔یقینا حکومت کو گھر بھیج کر الیکشن کی تاریخ حاصل کرنا ایک بڑا مقصد بھی ہے اور ایک مشکل کام بھی۔ اگر اگلے چند دن میں وہ اپنے لانگ مارچ کے ذریعے یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ایف آئی آر کے اندراج سمیت باقی مرحلے تو آسان ہو جائیں گے۔ حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد وہ ضمنیوں میں دس افراد کے نام بھی شامل کر سکیں گے۔لیکن حیرت ہے کہ اصل لانگ مارچ کو تو تحریک انصاف نے ملتوی کر رکھا ہے اور ایک نسبتا چھوٹے کام کے لیے شہر بند کیے جا رہے ہیں۔ مرضی کی ایف آئی آر کا اندراج عمران خان کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔ وہ انہی لوگوں کے خلاف یہ ایف آئی آر درج کرانا چاہتے ہیں جن سے الیکشن کی تاریخ مانگ رہے ہیں۔ تازہ صورتحال میں یہ سوال شد و مد کے ساتھ اٹھا ہے کہ اگر عمران خان پورا زور لگا کے بھی حکومت اور طاقتور حلقوں سے ایک ایف آئی آر نہیں لے سکے تو الیکشن کی تاریخ کیسے لے لیں گے۔ ایک اور چیز نے بھی یقینا عمران خان کو دھچکا دیا ہے۔ پنجاب میں ان کا اپنا وزیر اعلی ان کے مطالبے کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے۔ اب بہت سے لوگوں کو سمجھ آتی ہو گی کہ عمران خان عثمان بزدار کو کیوں نہیں ہٹانا چاہتے تھے۔عمران خان کو سوچنا ہے کہ پنجاب میں ان کی حکومت ہے بھی یا نہیں ؟