برطانوی سامراج کا آفتاب نصف النہار پر تھا، استعماریت کے خلاف، دیگر مسلمان طبقات کے ساتھ، مجلس احرار بھی برسرِ پیکار تھی ، جس کے ہراول دستے میں سید عطاء اللہ شاہ بخاری کے ساتھ ، آغا شورش کاشمیری بھی نمایاں اور معتبر تھے ، جنہوں نے بالخصوص پنجاب کو فوکس کر رکھا تھا، جہاں ہندو دشمنی کے علاہ از خود مسلمان بھی کئی خانوں میں منقسم ، بلکہ ایک دوسرے سے اُلجھے ہوئے تھے ، بقول شورش کاشمیری : طاقت کا نیوکلس اور مدار بڑے جاگیردار ، زمیندار اور ان کے ساتھ سرکاری اہلکار اور سجادگان و خانقاہ نشین تھے ، ان کے مطابق: پیروں نے مقامی لوگوں کی عقلوں پر ، زمینداروں نے ان کے جسموں پر اور افسروں نے ان کے مالی وسائل پر قبضہ کر رکھا تھا۔ احراریوں کی چھننی سے ، کسی چیز کا چھننا آسان نہ تھا، مگر ایک مقام ایسا بھی تھا جہاں کی عقیدت و ارادت اور محبت کو یہ طبقہ بھی اپنے لیے حرزِ جاں سمجھتا تھا، وہ تھا گولڑہ شریف اور وہاں کے سجادہ نشین پیر سید غلام محی الدین گیلانی ، جو دنیائے تصوف و طریقت میں "بابوجی" کے نام سے معروف ہوئے، شورش کہتے ہیں کہ : ’’سیدنا مہر علی شاہ قدس سرہ العزیز کے بعد آپ کے فرزندپیر سید غلام محی الدین شاہؒ، آپؒ کے جانشین ہوئے ۔ آپ نے تعلیم و تربیت کے علاوہ اپنے یگانۂ عصر والد قدس سرہ کی نگاہ سے فیض حاصل کیا اور ایقان و عرفان کی متصوفانہ منزلیں طے کیں۔ آپؒ کو اعلیٰ حضرت گولڑویؒنے بابو جی کہہ کر مخاطب کیا، تو خانوادۂ طریقت میں اسی لقب سے معروف ہو گئے۔ راقم(شورش کاشمیری) کو آپ سے سولہ برس نیاز رہا۔ آپ نے 1959ء میں حرمین شریفین سے واپسی پر راقم کے غریب خانہ کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے سرفراز کیا۔ اس دن سے آپؒ کے وصال، جون 1974ء تک احقر کو آپ سے قربت کا شرف حاصل رہا ۔ ہر چیز قربت سے کشش کھو دیتی ہے، لیکن آپؒ کا وجود فی الواقعہ معرفت حق کا خزینہ تھا ، آپؒ سے قرب، ارادت پیدا کرتا اور محسوس ہوتا کہ آپؒ اللہ کی زمین پرکوئی کرشمۂ الٰہی ہیں، آپ بلاشبہ ایک ولی اللہ اور جودو سخا کے انسان تھے ۔ آپ کے وجود میں وہ تمام اوصاف متجلی نظر آتے جو قرونِ اولیٰ میں صحبت یافتگانِ رسالت کی خصوصیت تھے ۔ آپ علائقِ دنیا سے اس حد تک بے نیاز تھے کہ آپ کو معلوم ہی نہ تھا ، دنیا کیا ہے اور اس کے شب و روز کیا ہیں؟ فیلڈ مارشل ایوب خان نے اقتدار سنبھالا اور دارالحکومت راولپنڈی لے گئے، تو آپ سے رابطہ پیدا کرنا چاہا۔ اپنا سیکرٹری بھیج کر آپ کو یاد کیا ۔ راقم بھی وہیں تھا۔ صدر ایوب کی طرف سے سیکرٹری نے اخلاص کا اظہار کیا اور پیغام دیا کہ صدر آپ سے ملنے کے متمنی ہیں اورمجھے اسی غرض سے ۔۔۔ آپ کی خدمت میں بھیجا ہے ۔ قصرِ صدارت کو شرف بخشیے ۔ آپ نے اس فرمان کے مطابق کہ :بہتر امیر وہ ہے جو فقیر کے دَر پر جائے اور بُرا فقیر وہ ہے جو امیر کے دَر پہ حاضر ہو، فرمایا میرا معاملہ اپنے رب سے ہے ۔ مجھے ملاقات سے معذور رکھیں تو بہتر ہے۔ اربابِ اقتدار سے میل ملاپ اور اس طرز کی راہ و رسم نہ میرے مشائخ کا مشرب رہا ہے اور نہ میرا مسلک ہے ۔ صدر کے سیکرٹری چلے گئے۔ پھر ان سے لاہور ملے ، اگلی ملاقات کراچی میں کی، لیکن بابو جی کا فقر و استغناء اس رفعت پر تھا کہ اپنے فیصلہ پر قائم رہے ۔ فرمایا کہ اقتدار اور فقراء اکٹھے نہیں ہوسکتے ۔ اس چیز نے راقم کو اس قدر متاثرکیا کہ تاریخِ اسلام کی وہ صداقتیں یاد آ گئیں جنہیں پڑھ کر حیرت ہوتی کہ فی الواقعہ جلال و استبداد سے فقر و استغنا نے اس طرح خطاب کیا تھا؟ اور اب راقم دیکھ رہا تھا کہ بابو جی ان صداقتوں کی ترت پھرت تصویر ہیں ۔ بابو جی سیاسی انسان بالکل ہی نہ تھے۔ ان کا وجود ایک دینی تحریک تھا۔ وہ نگاہ کرتے اور انسان اپنے اندر ایک انقلاب محسوس کرتا۔ وہ بات چیت کے انسان نہ تھے۔ ان کا ختم نبوت کے مسئلہ سے موروثی تعلق تھا ۔ اس غرض سے شخصاً کسی تحریک ، تنظیم یا مؤتمر میں شامل نہ ہوتے، لیکن سفر و حضر میں دعا گو رہتے ۔ 1953ء کی تحریک میں علماء وصلحاء کی یکجہتی کے لیے لاہور میں مجلسِ مشاورت کا اجلاس ہوا، تو آپ پہلی دفعہ مدعوئین کی زبردست خواہش پر تشریف لائے ۔ آپ کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری فوراً ٓگے بڑھے، آپ کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا ۔ جھک گئے۔ کہنے لگے: حضرت! آپ آگئے، بحمد اللہ! ہماری نصرت وکامیابی قریب ہو گئی ہے۔ میرے سامنے حضرتِ اعلیٰ گولڑویؒ ہیں۔ ہم تو انہی کا مشن لے کر چل رہے ہیں۔ بابوجی ہی کا فیضان تھا کہ مسلمانوں کے مختلف مکاتیب فکر، جو بعض فروعی جھمیلوں کے باعث کبھی اکٹھا نہ ہوتے تھے، اس تحریک میں اکٹھے ہو کر قادیانیت سے ٹکرا گئے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس تحریک میں دیوبندی، بریلوی، حنفی، اہلحدیث اور شیعہ ایک ہو کر قادیانیت کے خلاف متحد العمل ہوئے۔ حضرت بابو جیؒ اس وقت کے مقتدرین ، ملک غلام محمد گورنر جنرل ، خواجہ ناظم الدین وزیر اعظم اور میاں مشتاق احمد گورمانی وزیر داخلہ سے بھی ملے۔ انہیں مسلمانوں کے جذبات اور مسئلہ ختم نبوت کی اہمیّت سے آگاہ کیا اور اسیرانِ تحریک کی مشکلات کے ازالہ پر توجہ دلائی۔ راقم یعنی شورش کاشمیری کو شروع مئی 1968ء میں فیلڈ مارشل ایوب خاں کی ہدایت پر جنرل موسیٰ گورنر مغربی پاکستان نے ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت بلا معیاد نظر بند کیا۔ ہفتہ وار چٹان کا ڈیکلریشن منسوخ کر ڈالا اور چٹان پریس ضبط کر لیا ۔ مختصر یہ کہ راقم کو مروا دینے کا منصوبہ بن گیا، جس کو عملی جامہ ڈیرہ اسمعیل خاں سے کراچی منتقل کرتے وقت بنوں کے راستہ میں پہنایا جانا تھا، لیکن حضرت بابوجیؒ کا تصرف اور نگاہِ کرم کام کر گئی۔ ان دنوں بابو جی قدس سرہ نے راقم کے بچوں کو اپنی شفقتوں میں شریک رکھا۔ احقر کی اہلیہ نے آپ سے عرض کیا۔ حضور رحمت اللعالمین ﷺ کے صدقہ میں اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم شریک حال ہے، کوئی تردّد نہیں۔ نہ کسی چیز کی احتیاج ہے ۔ صرف اپنی دعاؤں میں شریک کر لیں ۔ ہماری واحد ضرورت یہی ہے ۔۔۔ فرمایا ۔۔۔ ’’مجھے توحضرت اعلیٰ گولڑویؒ کا حکم ہے، میں اُن کے ارشاد کی تعمیل کر رہا ہوں۔ بفضلِ تعالی شورش ہر بلاسے محفوظ رہے گا۔ اعلیٰ حضرت گولڑویؒ کی اُس پر نگا ہ ہے‘‘۔ بابو جی نے 1968ء سے لے کر اپنے وصال 1974ء تک، ہمارے مؤدبانہ اِعراض و انکار کے باوجود اپنا تلطّف جاری رکھا۔ فرماتے ’’شورش ختم نبوت کا سپاہی ہے اور ہم اس کے دُعا گو ہیں‘‘۔ حضرت بابو جی قدس سرہ نے راقم کو صبح شام کی دُعاوں میں شریک کر لیا ۔ آپؒ کے روحانی تصرفات کا فیضان تھا کہ راقم کا قلب مضبوط ہوتا گیا۔ پھر جب جون 1974ء سے تحریک کا فیصلہ کُن دور شروع ہوا، تو حضرت بابوجی نور اللہ مرقدہ مرض الموت میں تھے ، لیکن آپ کے معمول میں کوئی فرق نہ تھا۔ آپؒ کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ اللہ والے یہی ہوتے ہیں۔ راقم نے وصال سے چند دن پہلے نیاز حاصل کیا، تو فرمایا: ’’جدوجہد کیے جاؤ ، نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ پھر خاموش ہو گئے ۔ چہرہ مبارک دمک رہا تھا ۔ فرمایا:’’اب مسئلہ طے ہو کے رہے گا ، نصرت آ چکی ہے۔ میں حضرتِ اعلیٰ گولڑویؒ کے پاس جا رہا ہوں۔ اُن سے عرض کروں گا ۔ آپؒ نے جس پودے کی آبیاری کی تھی، وہ پھل لے آیا ہے‘‘۔