مری، ملک کا صحت افزا مقام ‘خوف و ہراس کا منظر پیش کر رہا ہے۔ موت کے سائے منڈلا رہے ہیں۔اب تک بائیس سے زائد شہری گاڑیوں میں محصور ہو کر جاں بحق ہو چکے ہیں۔ جس کی بڑی وجہ کاربن مونو آکسائیڈ(Co Gas)ہے‘اس گیس کی بو(Smell)نہیں ہوتی‘گاڑی سٹارٹ رہنے کی صورت میں‘سیلنسر کے ذریعے اس کا اخراج ضروری ہے۔ شدید برف باری کے سبب‘گاڑی کا ایگزاسٹ اور سلنسر برف میں دھنسنے سے‘گیس کا اخراج بند ہو گیا اور وہ باہر کی بجائے، گاڑی کے اندر ہی جمع ہونا شروع ہو گئی‘چونکہ اس گیس کی کوئی بْو نہ ہے‘لہٰذا اس کے یوں جمع ہونے کا پتا ہی نہیں چلا‘اور سیاح گاڑی کے اندر ہی بے ہوش اور پھر موت کی وادی میں چلے گئے۔ ایسی خطرناک صورتحال میں گاڑی کا سلنسر صاف رکھنا لازم اور گاڑی کے شیشے ہوا کی آمدورفت کے لئے کچھ نہ کچھ کھلے ہونے ضروری ہیں۔دوسری طرف ریکارڈ ساز برف باری نے گزشتہ کئی سالوں پر سبقت حاصل کر لی‘وہ مناظر دیکھے گئے کہ ماضی میں جس کی مثال نہ ہو گی۔ انتظامیہ کی غفلت‘لوگوں کا ہیجان‘آسان اور سستی تفریح کہ گاڑیوں کی آمدورفت کے ساتھ پبلک ٹرانسپورٹ سے استفادے والے بھی کم نہ ہونگے۔اور پھر سیاحت کے حوالے سے مری کی مرکزیت بھی گزشتہ پچاس سال سے قائم و دائم‘جبکہ ملک کی آبادی دوگنا بڑھ گئی۔ اس بابت مقررہ ایس او پیز پر تازہ ہدایات کے اجرا کا شاید موقع ہی نہ آ سکا۔بصورت دیگر اس سلسلے میں تمام متعلقہ محکمے اپنی اپنی ذمہ داریوں کا اعادہ کرنے کے لئے رسمی طور پر اجلاس ضرور منعقد کرتے ہیں۔ جس سے ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن اور دیگر ادارے مستعد ہو جاتے ہیں اور پھر ایسی ہنگامی صورت حال جنم نہیں لیتی۔ سرکاری اداروں میں دستاویزات بہت اچھے انداز میں مرتب ہوتی ہیں۔ان میں یقینا یہ موجود ہوتا ہے کہ کس موسم میں کس علاقے کی کون کون سی سڑکیں مرمت ہونی ہیں اور یہ کام کس محکمے نے کرنا ہے۔جیسے محرم الحرام کی آمد ہو تو علاقائی سطح سے لے کر صوبائی سطح تک‘ہر دفتر اور شعبہ اس ماہ کے شروع ہونے سے قبل ہی متعلقہ انتظامات میں لگ جاتا ہے ۔ اسی طرح ہم داتا دربار کے عرس پر بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہی محکمے اپنی ذمہ داریوں کی بجا آوری کا عندیہ دینا شروع کر دیتے ہیں‘اسی طرح اس سیزن کے آغاز پر بھی یقیناََ مری کی سطح پر تحصیل کنٹرول روم قائم ہو جانا ضروری ہو گا۔جس کا رابطہ اپنے سینئر کے ساتھ ضلعی اور ڈویڑنل سطح پر ہو۔اسی طرح برف باری کے حوالے سے بھی خاص سڑکیں طے شدہ ہونگی۔جہاں برف ہٹانے کے لئے خصوصی مشینری کی موجودگی گزشتہ ایس اوپیز کا حصہ ہو گی اور متعلقہ صوبائی محکمہ اس انتظام کا ذمہ دار ہو گا اور اس کا موثر نیٹ ورک اور کنٹرول روم بھی لازم ہوتا ہو گا۔ ایسی برف باری میں نمک جھڑکنے کے لئے ‘نمک اور اس کے چھڑکائو گاڑیوں کی دستیابی بھی ضروری ہوتی ہے‘جس کے لئے یقینا ’’فور بائی فور‘‘ جیپوں کی فراہمی بہی کسی کی ذمہ داری ہو گی۔ ٹریفک پولیس ایسے موقعوں پر ٹریفک پلان مرتب کرتی ہے۔اضافی نفری طلب کی جاتی ہے ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے ایک آگاہی مہم شروع کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں ایسے مقامات پر سول ایڈمنسٹریشن اور پھر پولیس، ریسکیو 1122،ہائی ویز‘مواصلات و تعمیرات‘جنگلات‘واپڈا وغیرہ کے مستعد اور پیشہ ور اہلکاران‘ایسی صورتحال کی مینجمنٹ کی مکمل استعداد اور صلاحیت سے آراستہ ہوتے ہیں۔ ضرورت صرف بروقت یاد دہانی اور لیڈر شپ کی ہوتی ہے۔بعض اوقات خود کو ذمہ داری سے بچانے اور دوسروں کے کندھوں پر بے جا ذمہ داریاں پھینکنے اور بے جا خط و کتابت میں اصل وقت گزر جاتا اور بعد میں پچھتاوا رہ جاتا ہے۔چونکہ اکثرعلاقوں کی مری تک اپروچ آسان ہے۔ سطح سمندر سے آٹھ ہزار فٹ بلند‘راولپنڈی و اسلام آباد سے شمال مشرق میں تقریباً پچاس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع، جو ایک ایکسپریس وے کے ذریعے دارالحکومت سے ملا ہوا ہے۔ راولپنڈی کی سوان ندی اور اس کا معاون نالہ ‘جس پر راولپنڈی کے نواح میں راول بند باندھا گیا تھا‘سب مری کے مضافات سے شروع ہوتے ہیں۔ مری کی چٹانیں دوسرے ارضیاتی دور سے تعلق رکھتی ہیں‘اس کے پہاڑ کوہ ہمالیہ کی مغربی شاخوں سے متعلق ،جو مشرق میں کہوٹہ اور مغرب میں مارگلہ کی پہاڑیوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔مری کی بلند ترین جگہ کشمیر پوائنٹ اور پنڈی پوائنٹ کے درمیان ہے۔جس کی بلندی 7508فٹ اور ان کی درمیانی سڑک مال روڈ کہلاتی ہے۔جو کہ اس سیاحتی مقام کا مرکز ہے۔یہ ایام مری میں شدید ترین سردی‘بارش اور برفباری کے سبب‘ٹورسٹوں کے لئے خصوصی جاذبیت رکھتے ہیں۔ درجہ حرارت بعض اوقات نقطہ انجماد سے بھی نیچے چلا جاتا ہے‘جبکہ اپریل سے اکتوبر تک کا موسم خوشگوار اور صحت بخش ہوتا ہے۔مری کے اصل باشندے ہزارہ اور آزاد کشمیر کے باسیوں سے مشابہت کے حامل اور نسبتاً تْند خْو اور سخت رو۔دیہات میں سیب‘آلوچہ‘ آڑو‘انگور‘ اخروٹ‘ ناشپاتی اور دیگر پھلوں کے باغات جبکہ مکئی‘ آلو اور چاول کی کاشت بھی ہوتی ہے۔ اس خطے کی دلآویزی اور خوبصورتی کے سبب اول اول 1850ء میں انگریز نے اس کا انتخاب کیا‘خانس پور جو کہ ایوبیہ سے ذرا نیچے ایک انتہائی دلکش اور روح پرور جگہ ہے‘جہاں انگریز فوج کے یونٹ مقیم ہوتے۔یہیں پر ہائر ایجوکیشن کمیشن اور پنجاب یونیورسٹی سمیت مختلف تعلیمی اداروں کے ریسٹ ہائوسز اور گیسٹ روم ہیں۔غالباً 1988ء میں ہمارا پہلا یونیورسٹی ٹور یہاں اترا۔ اس کے بعد بھی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا۔ایوبیہ سے خانسپور کا تین کلومیٹر کا راستہ متعدد مرتبہ پیدل طے کیا۔یہاں سے رات کو معروف درگاہ موہڑہ شریف کی روشنیاں بھی دکھائی دیتی ہیں،اگرچہ اب اس کے لئے کلڈانہ روڈ کی تعمیر مکمل ہو چکی اور زائرین کی سہولت کا اہتمام ہو چکا ہے۔ بہرحال اس موقع پر سیاسی زعما کے ساتھ عامتہ الناس کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے‘بلاوجہ پوائنٹ سکورنگ کی بجائے متاثرین کے زخموں کا مداوا اور آئندہ کے لئے موثر لائحہ عمل کی تشکیل میں مدد دینی چاہیے۔