عوام کو راستہ دینا بہترین آپشن ہوگا، یہ راستہ انتخابات کے ذریعے ہی دیا جاسکتا ہے۔موجودہ بحرانی حالات کا سب سے موزوں حل یہی ہوسکتا ہے وگرنہ زور زبردستی عوام کا وقتی طور پر راستہ تو روکا جاسکتا ہے لیکن ان کا مزاج تبدیل نہیں کیا جاسکتاآخر کار عوام پھٹ پڑیں گے، جس کا راستہ پھر روکنا مشکل ہوگا۔ ان دنوں جتنے بھی پرتشدد واقعات رونما ہوئے، وہ انتہائی قابل مذمت ہیں مگر سوال ہے کہ عوام ایسا کر سکتی ہے؟ اس بات کو کوئی تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں۔آسلام آباد ہائیکورٹ کے احاط میں شیشے توڑ کر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تھا۔ پرتشدد سوچ کس کی ہے؟ حکومت کیسے طاقت کے استعمال کے ذریعے عوامی سوچ اور مطالبات کو تبدیل کر سکتی ہے؟ اتنی سی بات حکمرانوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ مادر وطن کی وزیر اطلاعات چیف جسٹس آف پاکستان کو کیسے پرتشدد نتائج کی دھمکی دے رہی ہیں۔ کیا اسے قوم کی تربیت کا نام دیا جائے، دھمکی تصور کیا جائے یا ترغیب جانا جائے! دراصل پی ڈی ایم اتحاد بہت ساری غلطیوں کے علاؤہ تین غلطیوں کا ارتکاب کر کے اپنی سیاسی تنزلی کو دعوت دے چکا ہے۔ ملک کا نوجوان طبقہ ایک طویل عرصہ سے سیاست میں دلچسپی لینا چھوڑ چکا تھا، پاکستان میں کوئی وزیر اعظم بنے یا وزارت عظمیٰ کی کرسی سے اترے، اسے اس بات سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ تحریک انصاف نے وطن عزیز کے نوجوان کو سیاست میں ازسر نو دلچسپی لینا سیکھائی،نوجوانوں کو ملک و ملت کی خوشحالی کا بار بار خواب دیکھایا گیا اور وہ سیاست میں دلچسپی لینے لگے۔ پڑھے لکھے نوجوان طبقے کی حمایت نے تحریک انصاف کو مڈل کلاس طبقہ کی خواہشات کی ترجمان جماعت بنا دیا۔ نوجوان اور مڈل کلاس طبقہ ہر معاشرے میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، لہذا تحریک انصاف کے خلاف ہر حکومتی کاروائی پر رد عمل سامنے آنے لگا اور پاکستان کی سیاست میں دیہاڑی پر لوگوں کو جمع کرنے کی بجائے تحریک انصاف کی صورت میں ایک ایسی جماعت معرض وجود میں آگئی جس کا ٹاکرا روایت پسند سیاسی جماعتوں سے ہونے لگا۔ عمران خان کے دور اقتدار میں ان سے بہت ساری غلطیاں بھی سرزد ہوئیں مگر 9 اپریل 2022ء کو جس انداز میں ان کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا، ملک کا نوجوان اور مڈل کلاس طبقہ ایسا ٹرینڈ سیٹر بنا کہ بغیر لیڈرشپ کے مظاہرے ہونے لگے اور اس طرح سے دوسرے عوامی طبقات کی اکثریت بھی تحریک انصاف کی مرحلہ وار حمایتی بنتی چلی گئی۔ یہ حکمران اتحاد کی عوامی حمایت کو ترک کرنے کیلئے پی ڈی ایم اتحاد قائم ہونے کے بعد دوسری غلطی تھی کہ وہ عوام اسے تحریک انصاف کی بجائے اپنے مخالف تصور کرنے لگی، اس غلطی کا خیمازہ تاحال حکمران بھگت رہے ہیں جبکہ انکی تیسری غلطی عوامی اکثریت کی حمایت کو بزور طاقت روکنا اور انتخابات کے آگے بند باندھنا تھا۔ عوام پکے ہوگئے کہ پی ڈی ایم حکمران اور جماعتیں انکی بالادستی اور خواہشات کے خلاف ہیں، پوری دنیا میں عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں انتخابات کا راستے اختیار کیا جاتا ہے کیونکہ عدم اعتماد ہوتی ہی اکثریت کے خلاف ہے۔ موجودہ حکومت کی یہ تیسری غلطی اس وقت ملک میں مسائل اور بحرانوں کی اصل وجہ ہے۔ گزشتہ روز عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو اس کے بعد وطن عزیز میں جو کچھ ہوا، جتنے بھی پرتشدد واقعات رونما ہوئے، وہ انتہائی قابل مذمت تو ہیں اور ان کی کوئی محب وطن پاکستانی حمایت نہیں کرسکتا لیکن جب سپریم کورٹ میں عمران خان کو بلایا گیا تو انھوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم کسی طور پر انتشار نہیں انتخابات چاہتے ہیں۔ انتشار تو وہ چاہتے ہیں جو انتخابات نہیں چاہتے، اگر پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین اس حد تک کشیدہ ہوئے حالات کا بھی جائزہ لیا جائے تو اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ عمران خان کی حکومت گرانے کے بعد خوف انتخابات کا ہے، وہ انتخابات پر بضد ہیں اور یہ فرار پر! پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آئین کیا کہتا ہے، اس کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا، بہرحال طے ہوتا ہے کہ خوف عوامی جھکاؤ اور فیصلے کا ہے، جسے تسلیم نہیں کر پا رہے، عمران خان پر 200سے زائد مقدمات کی بوجھاڑ بھی اسی غرض سے ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے میں داخل ہو کر شیشے توڑ کر انھیں گرفتار کرنے کے طرز عمل اور سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے انھیں مدعو کر کے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے پر تنقید کے تابڑ توڑ حملوں کے پیچھے بھی یہی خوف اور خدشات ہیں۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد جلاؤ، گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات سے ان کی جماعت اور ان کے کارکنوں کا کچھ لینا دینا نہیں بلکہ حکومت کے گلو بٹوں کا ہاتھ ہے، اس طرح کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، وزیر خارجہ بلاول نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی پر ایسے واقعات کی بنا پر پابندیکے حامی نہیںہے۔ مارشل لاء کے خطرات کے انکار کیساتھ مبہم دھمکیاں بھی حکومتی وزراء کی زبانی ایمرجنسی کی باتوں کی صورت میں سامنے آرہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں اور کارکنوں کی حد سے زیادہ پکڑ دھکڑ کا کیا مطلب ہے؟ حکومت بوکھلاہٹ کی حد کو پہنچ چکی ہے اور اپنے آخری دموں پر ہے؟ یا پی ٹی آئی اور عمران خان کیخلاف کوئی خطرناک اقدام اٹھایا جانا مقصود ہے؟ ہر دونوں صورتوں میں عوام کے موقف کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ طاقت بھی بھلا کبھی کسی کا راستہ روک پائی ہے۔ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کیجئے یا اپنی تاریخ کی ورق گردانی کریں آج کی اپوزیشن کل کی حکومت ہوتی ہے یا ہوسکتی ہے، حکومت اس بات کا جائزہ لے اور انتخابات کی جانب بڑھ کر ملک کو بحرانوں سے نکالنے میں معاون ثابت ہو۔ حکمران ڈالر کے نرخ اور عام آدمی کی حالت زار کو دیکھ لیں، انھیں سمجھ آجائیگی کہ عوام کو راستہ دینا بہترین آپشن ہوگا، یہ راستہ انتخابات کے ذریعے دیا جاسکتا ہے!!!