پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے اتنی کوششیں ہوچکی ہیں کہ لوگوں کو یاد ہی نہیں کتنی مرتبہ یہ اعلان ہوچکا ہے کہ بدعنوان عناصر کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے ۔ایوب خان نے جب 27 اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء لگایا تو فوری طور پر بدعنون سیاستدانوں اور سرکاری افسروں کے احتساب کا اعلان کیا گیا ۔ سیاستدانوں کے لئے’ ایبڈو ‘ کے نام سے قانون بنایا گیا اور انہیں جیل میں ڈال کر ان کے سیاست میںحصہ لینے پر پابندی لگادی گئی ،ساتھ ہی کرپٹ عناصر ،سرکاری افسران کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی اور سیکڑوں ایسے افسران کو برطرف کردیا گیا جن پر رشوت خوری اور لوٹ مار کے الزامات تھے ۔جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1969ء میں مارشل لاء لگایا تو انہوں نے بھی کرپشن کے خاتمے کے لیے بدعنوان افسروں کیخلاف کارروائی شروع کی ۔ بھٹوصاحب نے اقتدار میں آنے کے بعد سینکڑوں بیورو کریٹس کے خلاف ایکشن لیا ۔بھٹو صاحب کے مخالفین نے الزام لگایا کہ زیر عتاب آنے والے افسر دراصل وہ تھے جو ایوب خان کے اور مسٹر بھٹو کے مخالف تھے ۔ پانچ جولائی 1977ء کو جب جنرل ضیاء الحق نے ’’آپریشن فیئرپلے ‘‘ کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹا اور نوے دن میں دوبارہ الیکشن کراواکر اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو دینے کا اعلان کیا تو ضیاء الحق نے کچھ عرصے کے بعد پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی اور ان سرکاری افسران کے احتساب کا اعلان کیا جن پر ملکی خزانے کو لوٹنے کا الزام تھا ۔پیپلز پارٹی کی حکومت کی بدعنوانیوں کے بارے میںایک ’’وائٹ پیپر‘‘ بھی شائع کیا گیا تھا ۔’’پہلے احتساب اور پھر انتخاب ‘‘ کا نعرہ لگاکر انتخابات غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کردیئے گئے ۔ نوے دن میں الیکشن کرانے کااعلان کرنے والے جنرل حیاء الحق نے گیارہ برس تک ملک پر حکومت کی ۔اگر وہ طیارے کے حادثے میں جاں بحق نہ ہوتے تو مزید کئی بردس تک حکومت کرنے کا منصوبہ؎ بناچکے تھے ۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002ء میں احتساب کا ایک اور نظام ’’نیشنل اکائونٹیبیلٹی ‘‘ کے نام سے متعارف کرایا ۔ اس نظام کے تحت قومی احتساب بیورو قائم یا گیا ۔کئی سیاسی لیڈر ،سرکاری افسران اور بزنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے گرفتار بھی ہوئے ۔ شروع میں ’’نیب ‘‘ کی کارروائیوں سے کرپٹ افسر خوف زدہ تھے ۔ انہوں نے رشوت سے لی گئی گاڑیاں بھی چھپادی تھیں اور سادہ لباس پہننا شروع کردیا لیکن چھ ماہ بعد جب انہیں یقین ہوگیا کہ یہ احتساب بھی ماضی میں ہونے والے احتساب کی طرح برائے نام ہی ہے تو وہ اپنی پرانی’’ ڈگر ‘‘پر چلنے لگے ۔جنرل مشرف کی حکومت میں شامل سیاستدانوں جو (ن ) لیگ اور دوسری پارٹیوں سے آکر کنگز پارٹی میں شامل ہوئے تھے۔ ’’نیب‘‘کے ذریعے گرفتار ہونے والوں کوآہستہ آہستہ چھڑانا شروع کردیا ۔وزیر اعظم شوکت عزیز ان ٹیکس اور ڈیوٹی چوروں کو یہ کہہ کر چھڑاتے رہے کہ بزنس کمیونٹی احتساب سے پریشان ہے اور انہیں سرمایہ کسی اور ملک منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے ۔جنرل مشرف ڈر گئے اور کئی بڑے چور چھوڑ دیئے گئے ۔جنرل مشرف کے دور میں ہی احتساب کا عمل سبوتاژ ہونا شروع ہوگیا تھااور وہ مگر مچھ جن کے پیٹوں میں قوم کے سرمائے کے اربوں روپے تھے وہ سب احتساب کا مذاق اڑانے لگے ۔ عمران خان نے احتساب اور بدعنوانی کے خاتمے کو اپنی پارٹی کا نعرہ بنایا اس احتساب کا جو حشر ہوا وہ ہمارے سامنے ہے ۔ عمران خان کے دور میں پکڑے جانے والے سارے ’’معززین ‘‘ دندناتے پھر رہے تھے ۔ ایک مرتبہ پھر بجلی کے آسمان تک پہنچے ہوئے نرخوںپر جب عوامی ردعمل سامنے آیا تو بجلی چوروں ،ڈالر کے سمگلروں،ذخیرہ اندوزوں ،گندم اور چینی ذخیرہ کرنے اور سمگل کرنے والوں کے خلاف ’’ڈنڈا‘‘ استعمال کرنے کی باتیںہورہی ہیں ۔ پاکستان کے عوام مشاہدہ کررہے ہیںکہ بجلی چوروں اور ان کے سرپرستوں ،گندم اور ڈالر ذخیرہ کرنے اور سمگل کرنے والوں کے خلاف ایکشن ہوگا۔اب تک صرف چھوٹے چوروں کے خلاف کارروائی ہورہی ہے ۔گھریلو سطح پر بجلی چوروں یا چھوٹے کاروباری مراکز کے بارے میں ہی سوچا جارہا ہے ۔بجلی کی تقسیم اور ریکوری کرنے والی کمپنیوں کے سینکڑوں افسروں کے تبادلے ہورہے ہیں ۔لیکن کس نے کتنی بجلی چوری کرائی اور کتنے اثاثے بنائے اس بارے میں مکمل خاموشی ہے ۔وہ افسر جن کے دائرہ اختیار میں فیکٹریاں ، کمرشل ایریاز میں بجلی کی اربوں روپے کی چوری تو وہاں ہوتی ہے ۔ ابھی تک ان افسران کو کسی نے پوچھا تک نہیں ۔ ان کے اثاثوں اور بیرون ملک جائیدادوں کے بارے میں کوئی تذکرہ تک نہیں ہورہا ۔ماضی میں ایک قومی جماعت کی حکومت میںایک صاحب نے اس وقت کے وزیر اعظم کو’’ این ٹی ڈی سی ‘‘ وہ ادارہ ہے جو بجلی کی قومی سطح پر تقسیم کا ذمہ دار ہے ،کا چیئرمین بننے کے لئے کئی ارب روپیہ دینے کی پیش کش کی تھی ۔بجلی چوری ایک بہت بڑا سکینڈل ہے ۔ اسی طرح شوگر مافیا کو کررہا ہے اور سٹے باز معیشت کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔بدعنوانی کے خاتمے کی کوئی بھی کوشش ماضی میں کامیاب نہیں ہوپائی ۔ اس لئے چور اور چوکیدارایک دوسرے سے مل جاتے رہے ہیں ۔ اس لئے یہ ملک اب اس نہج پر پہنچ گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری میں ہماری عزت اور وقار خاک میں مل چکا ہے ۔چوری اور بدعنوانی ختم کرنے کیلئے ماضی کے مذاق کا اعادہ کرنا ہے تو بہتر ہے کہ اس قصے کویہیں تمام کردیاجائے ۔لوگوں کے جذبات سے مزید نہ کھیلا جائے ۔ اس طرح کی غیر سنجیدہ کوششوں سے چور لٹیرے مزید تگڑے ہوتے ہیں ۔ اب تو پانی سر سے گزررہا ہے ۔ پاکستان کے ذمہ دار افراد کی کرپشن کے چرچے بین الاقوامی میڈیا میں ہورہے ہیں ۔ اگر اب بھی بڑے چوروں کو نہ پکڑا گیا تو ملک کا مستقبل تاریک ہوجائے گا ۔