مملکت خداداد کے 76 ویں یوم آزادی کے موقع پر پاکستان،متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، ملائشیااور ترکیہکی معاشی صورتحال کا جائزہ اجمالی جائزہ لیاصرف ایک ہی حقیقت جاننے کے بعد میری آنکھیں کھل گئیں کہ آخر ہمارا نوجوان دیار غیر میں جانیکیلئے موت کو گلے کیوں لگارہا ہے؟ ماضی میںہم معاشی ٹائیگر بننے کا نعرہ ضرور لگاتے رہے لیکن کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا اس کا قصور وار کون ہے ؟ یہ جاننے کیلئے ہمیں کوئی لمبی چوڑی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، اعداد و شمار ہی سب کچھ بتا رہے ہیں 2022ء میں متحدہ عرب امارات کی فی کس آمدن 53757،سعودی عرب کی30436 ملائشیا کی 11972 ،ترکیہ کی 10616ڈالر جبکہ پاکستان کی فی کس آمدن صرف1600ڈالر رہی ، اس سال کے دوران بنگلہ دیش بھی ہم سے کہیں آگے رہا اس کی فی کس آمدن 2688ڈالر رہی، ہمارا حریف بھارت بھی ہم سے آگے رہا اس کی فی کس آمد ن2388 ڈالررہی، اقتصادی اور عسکری پابندیوں کے باوجود ہمارے ہمسایہ ملک ایران کی فی کس آمدن 4388ڈالر رہی ، آخر ہم خطے میں اتنے پیچھے کیوں ہیں اور اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے ؟ مقتدر قوتوں اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط بھی مانتے ہیں لیکن اس کے ثمرات نہیں ملتے خیر اس وقت یہ بات موضوع بحث نہیں تاہم اس بات کا جائزہ ضرور لیا جا سکتا ہے کہ آخر کیوں ہم معاشی ترقی کے میدان میں تنزلی کا شکار ہیں۔ آج مملکت خداداد کے قیام کو 76سال بیت گئے لیکن ہم اپنی حقیقی منزل سے دور ہیں ،کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والے ملک میں نظام مصطفی کا نفاذ ممکن ہوسکا اور نہ ہی اس کی خلوص دل سے سعی کی گئی۔ حقائق تلخ ہیں لیکن انہیں تسلیم کرلینے میں خیر کا پہلو ہے اگر ہم اپنی 76سالہ تاریخ کا جائزہ لیں ہمیں معلوم ہوگا کہ قیام پاکستان سے آج تک ہماری بیوروکریسی ، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قیادت کبھی بھی ملکی ترقی کیلئے ایک بیج پرنظر نہیں آئے تینوں ہی ملکی ترقی کیلئے مختلف زاویہ سے سوچتے رہے ہیں جس کی وجہ آج مملکت خداداد پاکستان پسماندہ ترین افریقی ممالک کی صف میں کھڑا ہے۔ متحدہ عرب امارات ہو یا سعودی عرب دونوں ممالک میں نام نہاد مغربی جمہوریت نہیں بادشاہت کا نظام ہے لیکن دونوں ممالک کی قیادت ، اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی ملکی ترقی کیلئے متحد ہیں۔ عوام میں انتشار ہے اور نہ ہی بیوروکریسی کسی خلفشار کا شکار ہے اسٹیبلشمنٹ بھی سیاسی قیادت کا مکمل ساتھ دیتی ہے ترکیہ اور ملائشیا میں جمہوری سیاسی نظام اتنا مستحکم ہوچکاہے کہ ٹرائیکا ( سیاسی قیادت، بیورکریسی، اسٹیبلشمنٹ )ملکی ترقی اور معاشی و سیاسی استحکام کیلئے ہمیشہ ایک بیج پر نظر آتی ہے ان میں اختلافات ضرور ہیں لیکن وہ ان اختلافات کی وجہ سے اپنا قومی نقصان نہیں کرتے۔ بنگلہ دیش میں سیاسی نظام مستحکم نہیں لیکن وہاں ٹرائیکا ایک میثاق معیشت کے تحت متحد ہے اور معاشی ترقی کے میدان میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کرتی ان کی دوست سرمایہ کاری پالیسیز کی وجہ سے ہمارے ملک سے بیشتر صنعتکار بنگلہ دیش منتقل ہو چکے ہیں۔ایران کے معاشی استحکام کی وجہ وہاں کا مضبوط مذہبی سیاسی نظام ہے جس کی وجہ سے نہ صرف ٹرائیکا متحد ہے بلکہ اپنے مذہبی سیاسی نظام کے استحکام کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کیلئے بھی تیار ہے۔ ہمارے روایتی حریف بھارت کا معاشی میدان میں آگے ہونا ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے کانگریس ہو یا بی جے پی کوئی بھی جماعت ملکی معیشت کی قیمت پر کوئی سودی بازی نہیں کرتی اسٹیبلشمنٹ ہویا بیوروکریسی ملکی مفادات میں سیاسی قیادت کے فیصلہ کو تسلیم کرتی ہیں۔ پاکستان میں ٹرائیکاکا ملکی سیاسی اور معاشی استحکام کیلئے مختلف سوچ رکھنا ہی ہماری ترقی میں سب سے بڑیرکاوٹ ہے۔ سیاسی قیادت کی سوچ سے بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ اتفاق نہیں کرتی جبکہ اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی کی رائے سے سیاسی قیادت کا اتفاق نہیں ہوتا ۔پاکستان پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ اور پھر پاکستان تحریک انصاف تینوں جماعتوں کے اسٹیبلشمنٹ اور بیوروکریسی سے اختلاف کے قصہ عام ہیں اور ان اختلافات کی وجہ سے ملک میں نہ سیاسی استحکام آسکا اور نہ ہی معاشی، تینوں ایک دوسرے سے جان چھڑانے کے چکر میں رہتے ہیں جس کی قیمت آج ہمارا ملک ادا کر رہا ہے۔ نواز شریف نے اپنے آخری دور حکومت میں بیوروکریسی سے جان چھڑانے کیلئے ''نیشنل ایگزیکٹو سروس'' متعار ف کرانے کا فیصلہ کیاتھا جس پر عملدرآمد کا ٹاسک پلاننگ کمیشن کو سونپا گیا تھا اس سروس کا مقصد ریگولر بیوروکریسی سے جان چھڑانا تھا جو کہ کسی نہ کسی طریقہ سے میاں نواز شریف حکومت کی بات کو من و عن تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھی۔ بیوروکریسی کی طرف سے اس سروس کو متعارف کرانے کی شدید مخالفت کی گئی اور بالآخر میاں نواز شریف نے اس سروس کو متعارف کرانے کا سلسلہ روک دیا چند ماہ بعد ان کی حکومت ہی نہ رہی اور بیل مونڈھے نہ چڑھ سکی قیام پاکستان کے 76سال بعد بھی آج صورتحال یہ ہے کہ ہمارے سیاسی نظام کا کوئی والی وارث نہیں۔ ملک میں معاشی عدم استحکام ہے ، سیاسی استحکام ایک مخلص سیاسی قیادت کے تسلسل سے ہی ممکن ہوسکتاہے جس کا ہمارے ملک میں فقدان ہے اگر کوئی بھی سیاسی قیادت اقتدار کے ایوان تک اپنا تسلسل برقرار رکھے اس کو بیورو کریسی اور اسٹیبلشمنٹ بھی کسی صورت مسترد نہیں کر سکیں گے تاہم تسلسل کے ساتھ اقتدار میں رہنے کیلئے ضروری ہے کہ عوام دوست فیصلے کئے جائیں۔ملائشیا میں سیاسی استحکام مہاتیر محمد کے طویل دور اقتدار میں آیاجس کے بعد وہاں بہترین معاشی پالیسی تشکیل دی گئیں جو کہ تسلسل کے ساتھ جاری رہیں ان ہی معاشی پالیسی کے اثرات عوام آج تک سمیٹ رہے ہیں۔ ترکی میں سیاسی استحکام رجب طیب اردگان دور حکومت میں آیا جن کی تشکیل کردہ معاشی پالیسیز نے ترکیہ کے عوام کی کایا پلٹ دی آج ترکیہ کی معیشت کا شمار دنیا کی مضبوط ترین معیشت میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی معاشی استحکام سیاسی استحکام کے ساتھ مشروط ہے تاہم ابھی تک کوئی ایسی جماعت سامنے نہیں آئی جو کہ اقتدار کے ایوان میں اپنا تسلسل برقرار رکھے یا اتحادیوں کے بغیر حکومت تشکیل دے سکے۔ ایسی صورت میں بنگلہ دیش ماڈل ہمارے لئے ایک بہترین مثال ہے حکومت کسی کی بھی آجائے معاشی پالیسیز تبدیل نہ ہوں تاکہ ان میں تسلسل برقرار رہے اور ملکی معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔