جب میں نے جنرل (ر) اسلیم بیگ کی ’’کی تصنیف اقتدار کی مجبوریاں‘‘پڑھی تو اس وقت تک میرے ذہن میں یہ سوال کھٹک رہا ہے کہ 1988میں جب یہ بد ترین خونریزی ہوئی تھی تو اس وقت مرزا اسلم بیگ پاکستان آرمی کے سربراہ تھے۔ جنرل ضیاء الحق بہاولپور کے قریب لال کمال بستی میں C-130طیارے کے حادثے کے بعد نا گہانی طور پر منظر سے اوجھل ہو گئے۔ گو کہ مارشل لا ء نہیں لگایا گیا تھالیکن اختیار کی تمام کنجیاں مرزا بیگ کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن انہوں نے اس وقت سندھ میں خصوصاً30ستمبر کے اندوہناک اور دل خراش سانحہ، پکا قلعہ حیدر آباد کے محاصرے اور یہ کہ سندھ میں لسانی اکائیوں کے مابین کشیدگی، ایم کیو ایم کے عروج، پیپلز پارٹی کے کردار اور جئے سندھ کی اٹھان جیسے موضوعات پر اظہار خیال کیوں نہیں کیا۔ یہ وہ موضوعات تھے جن پر سندھ سے تعلق رکھنے والی تمام لسانی اکائیوں سے وابستہ لوگ حقائق جاننا چاہتے تھے۔ یہ 30ستمبر 1988کی وہ شام تھی جب مغرب سے ذرا پہلے جب سورج کی زرداور مدہم پڑتی شعاعیں اندھیر ا پھیلنے سے پہلے زمین کو الوادعی بوسہ دے رہی تھی۔ میں اس وقت روزنامہ نوائے وقت میں ملازمت کرنا تھا۔ یہ اتفاق تھا کہ اس دن کسی تقریب میں شرکت کے لئے اپنے بھائی کے گھر حیدر آباد آیا ہوا تھا۔ فضا میں گولیوں کی تڑا تڑاہت گونجی، اندیشے جاگے۔ اور پھر مارکیٹوں میں دکانوں کے شٹر گرنے شروع ہو گئے۔ خوف فضامیں تیرنے لگا معلوم ہوا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں گاڑیوں میں سواردہشت گردوں نے بلا امتیاز سیدھی فائرنگ کر دی ہے ۔ شہر میں کم و بیش ایک ہی وقت میں 7مختلف علاقوں سے فائرنگ شروع کی گئی۔ فٹ پاتھ پر چلتے لوگ موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں میں رواں دواں سب ہی ان سفاک قاتلوں کے نشانے پر تھے آنا فاناً شہر میں ٹریفک جیسے غائب ہوگئی۔ قیامت صغری کا منظر تھا ، شہر کے متعدد علاقے فائرنگ کے بعد موت کے سناٹے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ لاشیں سڑکوں پر پڑی تھی۔ خوف کا یہ عالم تھا کہ پولیس کے جوان تھانے چھوڑ کر بھاگ گئے تھے، شہر میں ڈیڑھ گھنٹے تک اس طرح گولیاں چلائی گئی تھیں جیسے یہ کوئی جیتے جاگتے انسانوں کا شہر نہ ہو کوئی شکار گاہ ہو۔ ۔ قاتل ایک ساتھ لطیف آباد، ہیر آباد،پھلیلی مارکیٹ، پریٹ آباد، سائٹ ایریا، گاڑی کھاتہ پٹھان کالونی اور دیگر علاقوں جہاں جہاں گنجان آبادیاں تھیں قتل عام کے بعد اپنی گاڑیوں سمیت غائب ہو گئے،لاشیں سڑکوں پر پڑی تھیں۔ جب ہم باہر نکلے تو گھر کے قریب سینٹ ایلزبتھ ہسپتال لطیف آباد نمبر 7کے کوریڈوزمیں لاشوں کے انبار سے لوگ اپنے پیاروں کو ڈھونڈہ رہے تھے، شہر کے دوسرے ہسپتالوں میں بھی یہ افرا تفری تھی۔ لوگ دیوانہ وار اپنے پیاروں کو تلاش کرنے کے لئے ادھر سے ادھر بھا گ رہے تھے لیکن ایمولینس کی کوئی سہولت نہیں تھی۔ چھ نشستوں والی رکشاؤں سے لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال لایا جارہا تھا۔ یہ منظر رونگٹے کردینے کے لئے کافی تھا کہ لاشوں اور زخمیوں کو لاکر بوریوں کے طرح ہسپتال کے سامنے پھینکا جارہا تھا۔ انتظامیہ نے کرفیو نافذ کر دیا تھا، اخبار نویس لینڈ فون سے اپنے دفتر خبریں بجھوارہے تھے، ہمارے اخبار کے رپورٹرز نے رات گئے تک مرنے والوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد بتائی تھی ،قاتل فائرنگ کے فور اً بعدکر زیر زمین چلے گئے تھے ۔بعد میں حکومت سندھ کا کہنا تھاکہ ڈاکو جانو آرائیں اور ڈاکٹر قادر مگسی کو اس کاروائی کا ذمہ دار قرار دیکر شناخت کر لیا گیاہے۔ 30ستمبر کو قتل عام حیدر آباد میں ہو ا۔ واقعے کے چند گھنٹوں بعد ہی کراچی کی بعض بستیوں میں سندھی بولنے والوں کے مکانات پر حملے کئے گئے اور صبح تک کاؤنٹر اٹیک میں کراچی میں پچاس سے ساٹھ لوگ مرچکے تھے۔ میں نے اس سلسلے میں تقریباً کئی ماہ تک یہ کھوج لگانے کی کوششیں کی کہ اس قتل عام سے کسے کیا فائدہ پہنچا۔ کس نے فائدہ اٹھایا اور اتنے بڑے پیمانے پر قتل عام کے مقاصد کیا تھے۔ 30ستمبر ہر سال آتی ہے وہی سارے منظر وہی آہ بکا وہی دلدوز چیخیں یاد دلاتی ہیں کہ اس دن کتنا بڑا ظلم ہوا تھا اس وقت جنرل رحیم الدین کا کہنا تھا جنہیں جنرل ضیا ء الحق نے سندھ کا گورنر اس لئے بنایا تھا کہ وہ بڑے سخت گیر ا نسان تھے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے سمدھی بھی تھے۔ان کا خیال تھا کہ اتنے بڑے واقعے کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ آپ ذرا اندازہ کیجئے30ستمبر 1988کی شام کتنے گھرانے پر قیامت ٹوٹی تھی۔ اختر میمن کی بیوہ نسرین بتاتی ہیں کہ ہم ہی جانتے ہیں کہ ہم نے یہ ماہ وسال کس طرح مر مر کر گزارے ہیں۔ حکومت کی رٹ، حکمرانی کے انداز اور قانون اور انصاف کی بلادستی ملاحظہ ہو کہ سب کچھ جانتے بوجھتے کوئی بھی گرفت میں نہ آیا۔ ہمارے بہت ہی مہربان دوست شفیق الرحمان پراچہ اس وقت حیدر آباد کے ضلعی سر براہ تھے۔ انہوں نے بھی بہت سے حقائق سے مجھے آگاہ کیا جو مقدمہ چلا اس کا بھی حال سن لیجئے۔ مقدمہ چلا کر حیدر آباد کے ایڈیشنل سیشن جج نے ڈاکٹر قادر مگسی سمیت 34افراد کی رہائی کا حکم دیدیا۔ حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل میں چلی گئی۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس زوارحسین جعفری اور جسٹس عزیر اللہ میمن پر مشتمل ڈویڑن بینچ نے 27اکتوبر 2004کو 33ملزمان کو طلب کیا تھا۔ عدالت نے تمام ملزمان کو بری کر دیا حکومت کی طرف سے پھر اپیل کی گئی۔ جس پر 19مئی 2017کو ہونے والی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹہ اور محمد کریم خان آغانے فیصلہ دیا کہ جس عدالت نے بری کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ وہ مضبوط بنیادوں پر تھا ۔ اس فیصلے کے بعد 30ستمبر کے تمام ملزمان باعزت بری ہو گئے۔ 30ستمبر 1988کے اس سانحہ کے بعد اخبار اس کے ایڈیٹرز کی اس وقت کراچی کے کور کمانڈر جنرل آصف نواز جونیجو سے ہوئی تھی۔ یہ ایک غیر رسمی ملاقات تھی۔ اس ملاقات میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ ڈان کے ایڈیٹر محترم احمد علی خان نے بڑ ی شدو مد سے اردو اسپیکنگ کمیونٹی کی احساس محرومی کا تذکرہ کیا۔جنرل آصف نواز جنجوعہ نے نا انصافی سے ترتیب دینے والی پالیسیوں کے حوالے سے ہر سوال اور معاملے پر اپنی رائے دی۔ انہوں نے یہ کہ کر سب کو ششدرر کر دیا کہ 30ستمبر کو حیدر آباد اور یکم اکتوبر کو کراچی میں خونریزی کے پیچھے دو مختلف تنظیموں کا ہاتھ تھا لیکن ان کا کنٹرولر ایک ہی تھا۔ سچی بات ہے جب بھی حیدر آباد میں ہونے والی اس خونریزی کے متعلق سوچتا ہوں اداسی اور افسردگی گھیر لیتی ہے۔ یہ وہی شہر تھا جس کے لوگ ایک دوسرے کے لئے اس طرح محبت بانٹتے تھے ۔ اس کا یہ چہرہ کیوں بدنما ہوا یہ خون کے چھینٹے کہاں سے آئے؟ ذرا سوچئے ضرور۔