افغانستان کی عبوری حکومت کو عالمی برادری کی جانب سے تسلیم نہ کئے جانے کے باعث ہمسایہ ممالک میں پناہ اور تحفظ کے متلاشی افغان پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد بدستورچیلنج بنی ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان 1.4 ملین سے زیادہ رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے۔ تاہم، ایک پریشان کن صورتحال سامنے آئی ہے کیونکہ یہ انکشاف ہوا ہے کہ پاکستان میں تقریبا 7.5 ملین افغان پناہ گزینوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنی رجسٹریشن کی تجدید نہیں کی جس کی میعاد 30 جون 2021 کو ختم ہو گئی تھی۔افغان مہاجرین کی رجسٹریشن حکومت پاکستان اور یو این ایچ سی آر کے تعاون سے 2006 میں شروع ہوئی تھی اور اس کے نتیجے میں رجسٹریشن کے ثبوت (پی او آر) کارڈز جاری کیے گئے تھے۔ یہ کارڈ پناہ گزینوں کو قانونی حیثیت فراہم کرتے ہیں، جس سے وہ پاکستان میں عارضی طور پر رہنے اور صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور بینکنگ جیسی بنیادی خدمات تک رسائی حاصل کر تے ہیں۔ وہ انہیں 1946 کے فارنرز ایکٹ کے تحت گرفتاری، نظر بندی اور ملک بدری سے بھی بچاتے ہیں۔خیال رہے کہ2021 میں، حکومت پاکستان اور یو این ایچ سی آر نے رجسٹرڈ افغانوں کے ڈیٹا کو اپ ڈیٹ اور تصدیق کرنے اور انہیں 30 جون 2023 تک درستگی کے ساتھ نئے سمارٹ شناختی کارڈ جاری کرنے کے لیے ایک نئی تصدیقی عمل کا آغاز کیا، جسے DRIVE کہا جاتا ہے۔ غیر رجسٹرڈ ہونے کے نتائج خود افغان مہاجرین کے لیے سنگین ہیں۔ انہیں مسلسل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے گرفتاری اور ملک بدری کے خطرے کا سامنا رہے گا۔ وہ ضروری تقاضوں اور مواقع جیسے تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، ذریعہ معاش اور قانونی امداد تک رسائی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کی صورت حال پاکستان کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے، کیونکہ سرحد پار سے جاری دہشت گردی کی واقعات میں افغانستان کی سرزمین استعمال کی جارہی ہے۔ اس سے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کو اپنی معاشی اور سیکورٹی مشکلات کا سامنا رہتا ہے تاہم چار دہائیوں سے بدترین حالات کے باوجود پاکستان نے افغان مہاجرین کے ساتھ غیر معمولی فراخدلی اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ، غیر رجسٹرڈ افغانوں کی موجودگی ملک کے ساتھ ساتھ خطے کے لیے سماجی، اقتصادی اور سلامتی کے خطرات کا باعث ہے۔ اس سے افغان مہاجرین کے لیے پائیدار حل تلاش کرنے کی بین الاقوامی برادری کی کوششوں رضاکارانہ وطن واپسی، آبادکاری یا مقامی انضمام کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ افغان پناہ گزینوں کی غیر رجسٹرڈ حیثیت ان کے مسائل میں اضافہ کریں گے۔ جس سے وہ انسانی اسمگلروں اور مجرمانہ نیٹ ورکس کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔قانونی دستاویزات کے بغیر، انہیں استحصال،، حراست، اور بدسلوکی کے زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس سے وہ مستقل عدم تحفظ کی حالت کا شکار رہیں گے۔ گو کہ ریاست نے طویل عرصے سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی میں غیر معمولی فراخدلی کا مظاہرہ کیا ہے، لیکن اتنی بڑی آبادی کا بوجھ اٹھانے کا خمیازہ بھی بھگت رہا ہے۔ لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی غیر رجسٹرڈ حیثیت میزبان برادریوں میں پہلے سے محدود وسائل، عوامی خدمات اور بنیادی ڈھانچے پر بہت زیادہ دباؤ ڈال چکی ہے۔ یہ صورتحال سماجی ہم آہنگی، معاشی استحکام اور پناہ گزینوں اور مقامی آبادی دونوں کے تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم چیلنجز میں سے ایک ہے۔ پاکستان میں غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کا مسئلہ الگ تھلگ نہیں بلکہ ایک وسیع تر علاقائی چیلنج کا حصہ ہے۔ لہٰذا علاقائی تعاون، مکالمے اور بوجھ بانٹنے کے طریقہ کار کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ مشترکہ کوششوں سے افغان مہاجرین کے تحفظ اور حقوق کو یقینی بناتے ہوئے پاکستان پر بوجھ کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔پاکستان میں 7.5 ملین غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی موجودگی ایک اہم انسانی چیلنج کی نشاندہی کرتی ہے جس پر فوری توجہ اور ٹھوس کارروائی کی ضرورت ہے۔رجسٹریشن کے عمل کو ہموار بنانے، رسائی میں اضافے، بین الاقوامی حمایت اور علاقائی تعاون کے ذریعے ہم اس مسئلے کو حل کیا جاسکتا اور تعاون کرنے والے افغان مہاجرین کو وہ تحفظ اور مدد فراہم کر سکتے ہیں جس کی انہیں اشد ضرورت ہے۔ صرف اجتماعی اقدامات کے ذریعے ہی افغان مہاجرین کو درپیش خطرات کو کم اور ان کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ 2021 میں افغانستان میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے نہ صرف ان گنت افغان شہریوں کی زندگیوں کو درہم برہم کر دیا بلکہ ملک سے فرار ہونے والے افغانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ، جرائم پیشہ نیٹ ورکس نے کمزور آبادیوں، خاص طور پر ان لوگوںپر استحصال کرنے کا موقع حاصل کیا ۔افغانستان میں افغان طالبان کے تیزی سے اقتدار پر دوبارہ قبضے اور عبوری حکومت کا قابل قبول حل نہ نکلنے کی وجہ سے خوف اور غیر یقینی کی لہربرقرار ہے، جس کی وجہ سے ہزاروں افغانوں کو گھر واپسی کے لئے رضا کارانہ پروگرام میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدقسمتی سے بے گھر ہونے والے بہت سے افغان، جو تشدد اور جبر سے بچنے کے لیے بے چین ہیں، اپنی آخری امید کے طور پر انسانی اسمگلروں کے شکنجے میں پھنس جاتے ہیں۔ منافع کی لالچ میں یہ گروہ ایران کی سرحد کے ساتھ لوگوں کو اغوا بھی کرتے ہیں، جس سے ان لوگوں کے مصائب میں مزید اضافہ ہوتا ہے جو پہلے سے ہی تنازعات کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں۔ جرائم پیشہ نیٹ ورکس کا شکار ہونے والے افغان شہری پہلے ہی اپنے سفر کے مالی دباؤ اور اپنے گھروں اور معاش کے نقصان کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔لہذا غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین جلد ازجلد اپنی تجدید کرائیں تاکہ نامساعد مسائل سے بچ سکیں ۔