500سال قبل مسیح گوتم بدھ کی فلاسفیکا برصغیر میں ظہور ہوا اور بدھ ازم نچلی ذات کے ہندوئوں کا ایک دھرم بنا گوتم بدھ خود برہمن ذات سے تعلق رکھتا تھا ،دنیا کے اس چوتھے بڑے مذہب بدھ مت کے بانی سدھارتھ جی گو تم بدھ کی پیدائش 563 سال قبل مسیح موجودہ بھارت اور نیپال کے سرحدی علاقہ میں ایک طاقتور حاکم ریاست مہاراجہ شدھودن جی کے ہاں ہوئی۔گویا گوتم بدھ ایک رئیس زادہ اور سونے کا چمچ منہ میں لے کر پیدا ہو نے والا ہونہار تھا۔ مہاراجہ نے ہندوستان کے طول وعرض سے ہندو مت کے بڑے بڑے مذہبی پیسوائوں کو بھی جمع کیا تاکہ وہ انہیں نومولود کے مستقبل بارے کچھ بتائیں ۔ ایک مذہبی پیشوا نے آواز دی مہاراج جی ذرا ٹھرئیے !شدھودن جی رکے اور پیچھے مڑ کے دیکھا یہ ہندو مت کیمہا مذہبی پیشوا تھے۔ جو بڑا طویل سفر کرکے اس محفل میں رونق افروز ہوئے تھے۔ مہاراجہ نے دھنے واد کیا اور آداب بجا لاتے ہوئے پوچھا فرمائیے جناب! بڑے سادھو جی نے کسی لگی لپٹی کے بغیر مہاراجہ کو صاف صاف بتا دیا آپ کا بیٹا سدھارتھ آپ ہی نہیں ہندو مت کیلئے بھی ایک بڑا خطرہ بننے والا ہے۔ اپنے آپ اور ہندو دھرم کو کسی طرح اس خطرہ سے بچائیے،بڑے سادھو کی اس پیشین گوئی نے مہاراجہ کو پریشان کردیا اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھانے لگا تاہم اب مہاراج نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی ٹھان لی اس نے اپنے بیٹے سدھارتھ کیلئے ایک عالیشان محل تعمیر کرایا اور اس میں دنیا کی تمام نعمتیں فراہم کردیں تاکہ سدھارتھ کسی صورت اس محل سے باہر نہ نکلے۔ زندگی کے ماہ و ایام تیزی سے گزرتے رہے سدھارتھ نے لڑکپن میں قدم رکھتے ہی اس کے والد نے اس کی شادی ایک خوبصورت دوشیزہ سے کردی۔ مہاراجہ اپنے بیٹے سدھارتھ سے اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتا تھا اس کی ہر خواہش کوپورا کردیتا تھا اس نے یہ بات محسوس کی کہ سدھارتھ کے چہرے طمانیت نہیں ہوتی وہ ہمیشہ بڑا ڈوبا ڈوبا سا رہتا ہے اور اکثر خاموش رہتا ہے اس نے سدھارتھ بارے اپنی بہو سے استفسار کیا ، بہو کیا ماجرا ہے؟ بہو بھی کوئی اطمینان بخش جواب نہ دے سکی، اب شدھودن جی زیادہ فکر مند رہنے لگا اسے بڑے سادھو کی پیشگوئی یاد آئی ،اس نے محل کا محاصرہ مزید سخت کردیا ادھر سدھارتھ بھی اس قید سے تنگ آچکا تھا۔ ایک روز سدھارتھ نے فیصلہ کیا کہ وہ جلد شاہی محل کو خیرباد کہہ کر'' سکون کی تلاش'' میں نکل جائے گااور کسی کو اپنے بارے کانوں و کان خبر بھی نہیں ہونے دے گا وہ موقع کی تلاش میں رہا اور وہ گھڑی آن پہنچی جب سدھارتھ نے اپنی بیوی اور والدین کو خیر باد کہہ کر جنگلوں کا رخ کر لیا اس نے عیش و عشرت کی زندگی چھوڑ دی وہ'' اسٹیٹس کو'' سے تنگ تھا ،6 سال تک وہ'' سکون کی تلاش'' میں سرگرداں رہا اور بڑی محنت شاقہ کے بعد اس نے زندگی کا راز پایا ۔ اسے معلوم ہوا کہ سکون کے چشمے انسان کے اندر سے پھوٹتے ہیں اسے باہر مت ڈھونڈا جائے اس کا نظریہ بن چکا تھا غصہ کی وجہ سے سزا نہیں ملتی بلکہ غصہ بذات خود ایک سزا ہے اور پھر غصہ پر ڈٹے رہنا اپنے آپ کو بھسم کرنے کے مترادف ہے اور ایسے ہی ہے جیسے دہکتا ہوا کوئلہ ہاتھ میں پکڑ لواس سے پہلے کہ کسی اور کو نقصان ہو آپ کا اپنا ہاتھ جل جائے گا۔ سدھارتھ گوتم بدھ کہتا ہے کہ ذوق کے ساتھ سفر میں رہنا منزل پر پہنچنے سے بہتر ہے اور جان لو کہ کبھی بھی نفرت کو نفرت سے مٹایا نہیں جاسکتا کیونکہ جو سوچو گے وہی بن جائو گے۔ خیال ہی ہر شے ہے ہم اِس وقت جو بھی ہیں وہ اپنے خیالات کی وجہ سے ہیں۔جب دل و دماغ میں اخلاص ہوگا پھر خوشی ایسے پیچھا کرے گی جیسے سایہ ، گوتم بدھ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سچ کی تلاش میں انسان دو غلطیاں کرتا ہے ایک سچ کی تلاش کا سفر شروع ہی نہیں کرتا دوسرا اگر سچ کا سفر شروع کرلے پھر منزل پر پہنچنے سے پہلے ناامید ہو جاتا ہے وہ کہتا ہے کہ قناعت دنیا کا سب سے بیش بہا خزانہ ہے۔قناعت نہ ہو پھرآسمان و زمین کے تمام خزانے مل کر بھی تمہیں خوشی نہیں دے سکتے۔ایک شمع سے ہزاروں شمعیں روشن ہو سکتی ہیں اور اس شمع کی لو کم نہیں ہو گی خوشی کی شمع بھی ایسے ہی روشن ہوتی ہے بس خوشیاں بانٹو،سوچ کی گہرائی پانے کا طریقہ یہ ہے کہ نہ ماضی پر توجہ کرو نہ مستقبل پربلکہ لمحہ موجود پر توجہ دو،جو بویا ہے وہ کاٹ کے رہو گے، تمہاری جانب سے اِس دنیا میں سب سے زیادہ محبت کیے جانے کے لائق ہے تم خود ہو اور دیکھو جسم کو صحت مند رکھو ورنہ تمہارا تخیل دھندلا جائے گا۔ سدھارتھ گوتم بدھ کے نظریات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جنت دوزخ اور سزا و جزا کا قائل تھا وہ ایک برہمن ہونے کے باوجود ذات پات پر یقین نہیں رکھتا تھا بلکہ اپنی زندگی میں اس ڈاکٹرائن کیخلاف آواز بلند کرتا رہا اس نے فلاح انسانیت کیلئے نفرتیں مٹانے اور محبتیں باٹنے کی تھیوری پیش کی اگر اس کی تعلیمات کا غور سے مطالعہ کیا جائے معلوم ہوگا کہ وہ ایک انسان کو اپنی ذات پر''فوکس''کرنے کی طرف متوجہ کرتا ہے اس کا خیال ہے کہ اگر انسان اپنی ذات کو ''فوکس''کر لے اور ا پنے خیال اور سوچ کو درست کرلیپھر اس کے کام بھی درست ہونا شروع ہوجا ئیں گے۔ گوتم بدھ کی فلاسفی میں ایک مذہب کا عنصر کم ملتا ہے جبکہ وہ'' انا کو فنا'' پر زیادہ زور دیتا ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ اسے نیپال اور بھارت میں مذہب کے طور پر پزیرائی نہیں مل سکی تاہم اس کی فلاسفی کی قابل قدر ہے موجودہ دور میں نئی نسل کا سب سے بڑا مسئلہ ہی سوچ کو درست سمت دینا ہے اور اپنے آپ میں چھپے انسان پہچاننا ہے سوچنے کی بات ہے کہ اگر سکون گوتم بدھ کو محلات میں نہیں مل سکا پھر ہمیں وہ کیسے عیش و عشرت میں ملے گا ؟