نواز شریف نے بطور وزیر اعظم آٹھ آرمی چیفس کے ساتھ کام کیا ،سبھی کے ساتھ ان کے تعلقات انتہائی کشیدہ رہے۔ ان میں سے کم از کم تین چیفس تو انہوں نے خود لگائے تھے، جبکہ دو کے تقرر میں وہ غلام اسحاق خان کے ساتھ مشاورت کا حصہ رہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ آٹھ کے آٹھ آرمی چیفس کے ساتھ ان کے تعلقات میں بگاڑ رہا؟تین بار انہیں حکومت سے بے دخل کیا گیا اور ایک آرمی چیف سے انہوں نے استعفیٰ لے لیا۔جب آرمی چیف لگانا ان کا اختیار نہیں تھا، تب بھی وہ اپنی مرضی کا ہی آرمی چیف لگانا چاہتے تھے، جب اُن کے پاس اختیار آیا تب انہوں نے اس کا بے دریغ استعمال کیا اور اب ایک بار پھر وہ اپنی مرضی کا آرمی چیف ڈھونڈ رہے ہیں ۔ جب نواز شریف پہلی بار وزیر اعظم بنے تو آرمی چیف جنرل اسلم بیگ تھے۔وہ آئی جے آئی بنا کر بے نظیر کے خلاف اقتدار میں لائے گئے تھے۔ انہیں اقتدار میں لانے کے منصوبہ سازوں میں خود اسلم بیگ بھی شامل تھے۔ اس کے باوجود فارن پالیسی پر نواز شریف کا جنرل اسلم بیگ سے اختلاف ہو گیا۔ اسلم بیگ گذشتہ دہائی کی پالیسیوں کو جاری رکھنا چاہتے تھے۔ جبکہ نواز شریف افغان جنگ کے خاتمے کے بعد روکی گئی 600 ملین ڈالر کی امریکی امداد کی بحالی کے خواہشمند تھے۔ مختلف معاملات پر اختلاف اتنا بڑھا کہ اسلم بیگ بمشکل اپنی مدت پوری کر پائے ۔ جنرل اسلم بیگ کے بعد سینئر ترین افسر جنرل شمیم عالم خان تھے۔ دوسرے نمبر پر آصف نواز جنجوعہ اور تیسرے پر جنرل حمید گل تھے۔ اسلم بیگ چاہتے تھے کہ جنرل حمید گل کو آرمی چیف لگایا جائے۔ نواز شریف نے جنرل حمید گل کی اس لیے مخالفت کی کہ وہ اسلم بیگ کی پالیسیوں کا تسلسل نہیں چاہتے تھے۔ اگرچہ ان کی خواہش تھی کہ جنرل شمیم عالم کو آرمی چیف بنا دیا جائے لیکن اس پر غلام اسحاق خان نہ مانے۔ پھر درمیانی راستہ نکالا گیا اور نواز شریف کی مشاورت سے جنرل آصف نواز جنجوعہ کو آرمی چیف لگا دیا گیا۔ جنرل آصف نواز جنجوعہ سے مختلف وجوہات کی بنا پر نواز شریف کے پہلے ہی دن سے اختلافات ہوگئے۔ اگرچہ بڑے میاں صاحب نے انہیں رام کرنے کی بہت کوشش کی، یہاں تک کہا کہ یہ دونوں تمہارے چھوٹے بھائی ہیں اگر تنگ کریں تو بتانا میں ان کے کان کھینچوں گا۔پھر اس سے بھی بڑھ کر کیا مگر تعلقات میں کبھی بہتری نہ ہوئی۔ نواز شریف پرائیویٹ محافل میں آرمی چیف کونہایت ضدی شخص قرار دیتے اور انہیں جنرل گل حسن جیسے انجام سے دوچار کرنے کی باتیں کرتے رہے اور جنرل آصف مختلف مقامات پر نواز شریف کی ان باتوں پر ردعمل دیتے رہے ۔نواز شریف کو جو باتیں اِدھر اُدھر سے معلوم ہو رہی تھی وہ انہیں آئی ایس آئی چیف جنرل اسد درانی نہیں بتا رہے تھے۔نواز شریف کو اس بات پہ اعتراض تھا۔انہوں نے اسد درانی کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔نواز شریف نے آرمی چیف سے ملاقات کر کے بتایا کہ وہ اسد درانی کو ہٹا کر جنرل جاوید نصیر کو آئی ایس آئی چیف لگانا چاہتے ہیں۔ آرمی چیف آصف نواز کو اس نام پر اعتراض تھا۔ دراصل جاوید نصیر نے بعد میں اسلام قبول کیا تھا اور مذہبی معاملات میں کافی سخت مزاج تھے۔ وہ خواتین کی طرف دیکھنے کو بھی غیر اسلامی عمل سمجھتے اور تبلیغ پر کافی توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ آرمی چیف کا خیال تھا کہ ایسا شخص اس عہدے کے لیے موزوں نہیں ہے۔بہرحال نواز شریف کی اپنی مرضی کا آئی ایس آئی چیف لگ تو گیا مگر آرمی چیف سے ان کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ تعلقات کی کشیدگی اس حد تک بڑھی کہ نواز شریف جنرل آصف نواز کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کے منصوبے بنانے لگے۔ قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ جنرل آصف نواز دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے مگر اس وقت کشیدگی اس قدر عروج پر تھی کہ نواز شریف پر آصف نواز کو زہر دینے کا الزام تک عائد ہوا۔ جنرل آصف نواز کے بعد ایک بار پھر نئے آرمی چیف کے نام پر صدر اور نواز شریف میں اختلاف پیدا ہوا۔نواز شریف چاہتے تھے کہ محمد اشرف جنجوعہ یہ عہدہ سنبھالیں جبکہ صدر اسحاق خان لیفٹیننٹ جنرل فرخ خان کی طرف مائل تھے۔بحث اتنی بڑھی کہ ڈیڈ لاک ہو گیا۔ پھر اس سلسلے میں چودھری نثار نے تنائو ختم کرانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اور بحث مباحثے کے بعد جنرل وحید کاکڑ کے نام پر اتفاق ہوا۔ جنرل وحید کاکڑ کے زمانے کے حاضر سروس افسران جنرل ظہیر الاسلام اور بریگیڈیر مستنصر باللہ نے خلافت نافذ کرنے کی مسلح کوشش کی تھی اور پکڑے جانے پر ان کا کورٹ مارشل ہوا تھا۔ جنرل وحید کاکڑ نے اس رجحان کو ختم کرنے کی کوشش کی اور اسی سلسلے میں آئی ایس آئی چیف جنرل جاوید نصیر کو ہٹا کر جنرل اشرف قاضی کو ان کی جگہ تعینات کیا۔ یہ بات نواز شریف کو ناگوار گزری اور جنرل وحید کاکڑ سے بھی ان کے اختلافات شروع ہو گئے۔آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ کو پاکستان کی تاریخ میں یوں تو غیر سیاسی جنرل کہا جاتا ہے لیکن نواز شریف آج بھی ان سے شکوے کرتے نظر آتے ہیں کہ صدر سے اختلافات کی بنیاد پر دونوں کو گھر بھیجنے والا ’’کاکڑ فارمولہ ‘‘ ایجاد کیوں کیا تھا۔ نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم بنے تو جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تھے جو ایک نہایت پروفیشنل سولجرتھے۔ دوسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد نواز شریف کی اولین خواہش اور ترجیح وزیر اعظم کے اختیارات میں اضافے کے لیے آئینی ترامیم کرنا تھا۔ بعض حلقوں میں اس سلسلے میں تشویش بھی پائی جاتی تھی۔ دوسرا موضوع فوج کے آئینی کردار کے لئے نیشنل سکیورٹی کونسل کا قیام عمل میں لانا بھی تھا۔ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جب آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کی ضرورت کا بیان دیا تو نواز شریف ناراض ہو گئے اور آرمی چیف کو بلا کر استعفیٰ لے لیا۔ حالانکہ جہانگیر کرامت سے نواز شریف کے تعلقات ایسے خراب نہ تھے مگر نواز شریف اپنی حاکمیت کا تاثر قائم کرنا چاہتے تھے کیونکہ دو تہائی اکثریت سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ (جاری ہے)