اپریل 2022ء میں تیرہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد نے پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد ملک کو کیا دیا؟ یہ بہت اہم سوال ہے۔اگلے الیکشن میں یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ عمران حکومت پر اپوزیشن کا سب سے بڑا الزام بری حکمرانی یا مس گورننس تھا۔عمران حکومت معاشی صورتحال کو سلجھانے میں ناکام رہی تھی۔مہنگائی کے خاتمے اور بیرون ملک سے اربوں ڈالر کی انوسٹمنٹ لانے کے اس کے دعوے غیر حقیقی تھے۔مہنگائی کے زور کو کنٹرول کرنا بھی پی ٹی آئی کے بس کی بات نہیں تھی۔اہم بات یہ تھی کہ عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بگڑ گئے تھے۔جس کی وجہ سے پی ٹی آئی کی حکومت فارغ کرنا آسان ہو گیا ۔ مسلم لیگ ن ‘پی پی پی‘ اے این پی‘ بی این پی‘ ایم کیو ایم،جے یو آئی سمیت دوسری جماعتوں کو حکومت بنانے کا موقع ملا۔یہ اتحادی حکومت بھی مہنگائی ختم کرنے میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ اس دور میں مہنگائی کا بوجھ لوگوں پر بڑھ گیا ۔لوگ بڑھتی ہوئی اشیائے ضروریات کی قیمتوں کے بوجھ کے نیچے پس رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے سرکردہ لیڈروں پہ یہ الزام بھی لگ رہا ہے کہ ان پر نیب میں بدعنوانی کے جو کیس رہے تھے وہ سارے ختم ہو گئے ہیں۔نیب قوانین میں ترمیم کر کے نیب کو اپاہج بنا دیا گیا ہے۔ایک ترمیم یہ بھی کی گئی ہے کہ پچاس کروڑ تک کی بدعنوانی کے کیس نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوں گے۔ان ترامیم سے پی ڈی ایم کے چوٹی کے لیڈروں کو کلین چٹ مل گئی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد موجودہ آئین کے مطابق نوے دن کے اندر انتخابات ہونا تھے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود نوے دن کے اندر انتخابات نہیں ہوئے بلکہ وہاں قائم ہونے والی حکومتیں ابھی تک کام کر رہی ہیں۔سپریم کورٹ کے فیصلوں کو تسلیم نہ کرنے اور مختلف مقدمات میں بننے والے بنچوں پر اعتراضات اٹھا کر اعلیٰ عدلیہ کو بے بس کر دیا گیا۔جس ملک میں پہلے ہی عدلیہ کی کارکردگی اور انصاف کی فراہمی کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی عدلیہ کی ساکھ اتنی اچھی نہیں ہے،پی ڈی ایم نے ملکی عدلیہ کے وقار کو اور بھی نقصان پہنچایا ہے ۔یہ سب سیاسی مفادات کی خاطر کیا گیا ہے۔پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ وہ جو کچھ کر رہی ہیں اس سے جمہوری اداروں اور اقتدار کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔عمران خان پر یہ الزام تھا کہ وہ جمہوری اداروں کو تباہ کر رہے ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کھیل رہے ہیں ۔جب ملک کی سرکردہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کو حکومت بنانے کا موقع ملا تو وہ خان صاحب سے دو قدم آگے نکل گئیں۔گزشتہ چند ہفتوں میں پارلیمنٹ اور اس کے دونوں ایوانوں میں جس انداز سے قانون سازی کی گئی ہے وہ جمہوری اور ریاستی اصولوں کا مذاق اڑانے والی بات تھی۔ قوانین منظور کرانے کے لئے میڈیا یا ذرائع ابلاغ کا گلہ گھونٹنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ان قوانین کی پیمرا کے علاوہ صحافتی تنظیموں اور خود حکمران اتحاد میں شامل ارکان نے مخالفت کی۔وزیر اطلاعات کو پیمرا ترمیمی بل بھی واپس لینا پڑا۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کا جو بل پیش کیا گیا اس کے تحت انٹیلیجنس ایجنسیوں کو وہ اختیارات دینے کی کوشش کی گئی جن سے شہری اور انسانی حقوق تقریباً ختم ہو گئے تھے۔اب اس بل میں ترمیم کر کے اسے کچھ بہتر بنانے کی کوشش کی گئی لیکن اس قانون پر اب بھی سول سوسائٹی، قانونی حلقوں اور میڈیا کے اعتراضات باقی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یہ قوانین منظور ہو رہے تھے تو اسمبلی میں کورم بھی پورا نہیں تھا۔بعض اوقات آٹھ یا دس افراد اسمبلی میں موجود ہوتے تھے۔اس طرح کا مذاق کبھی پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا۔ مسلم لیگ ن تو خود ان قوانین کا شکار رہی ہے جنہیں وہ اب منظور کروانے میں پیش پیش ہے۔پیپلز پارٹی مارشل لاء اور ریاستی جبر کا ایک عرصے تک مقابلہ کرتی رہی لیکن وہ بھی نہ جانے کس مجبوری کے تحت ایسے قوانین منظور کروانے میں فعال کردار ادا کر رہی ہے جن کے خلاف اس نے جدوجہد کی۔عوامی نیشنل پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی اور کئی دوسری جماعتیں حکومتی جبر کا شکار رہی ہیں۔کم از کم ان کو ان قوانین پر اعتراض کرنا چاہیے تھا جن سے شہری آزادیاں سلب ہونے‘ اظہار رائے پر پابندی لگنے‘جمہوری حقوق پر زد پڑنے کا خدشہ ہے۔ بعض مبصرین نے درست کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے شعوری طور پر یا مجبوری کے تحت پارلیمانی اختیارات‘ شہری آزادیوں کا سودا کیا ہے اور اس طرح سے اپنے اس مینڈیٹ سے ایک طرح کی غداری کی ہے جو عوام نے انہیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے دیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ نفرت اور تعصب کی وجہ سے دوسری سیاسی جماعتوں نے جمہوری اصولوں اور پارلیمانی روایات کا گلہ گھونٹ دیا ہے۔یہ سب کچھ کرنے کے بعد اب انتخابات کو جو اس سال آئین کے مطابق ہونا تھے پھر سے موخر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔حکومتی وزراء دھڑلے سے کہہ رہے تھے کہ اس سال انتخابات نہیں ہو سکتے اور اگر انتخابات کی تاریخ آگے بھی جائے تو کوئی قیامت نہیںآ جائے گی۔پی ڈی ایم کے سوا سال کے اقتدار نے پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت اور لوگوں کے آئینی حقوق کو پامال کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت بنے گی سنگین مسائل کی زد میں ہو گی۔معاشی بحالی ‘ قیمتوں میں کمی‘ زرمبادلہ کے مسائل پر قابو پانا‘ دہشت گردی کی شدت اختیار کرتی لہر کو روکنا اور بے روزگاری کا خاتمہ ایسے مسائل ہیں جو اگلی حکومت کے لئے چیلنج ہونگے۔ان مسائل کے حل کے لئے جس قومی اتحاد اور اتفاق رائے کی ضرورت ہے اس کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ ٭٭٭٭