برابر گھورتے رہنا خلائوں میں ہمارا کام ہے اڑنا ہوائوں میں کہیں سے ٹوٹ آئے گا ستارا بھی کہ ہم نے آنکھ رکھی ہے دعائوں میں ہائے ہائے کیا لکھیں’’بہت ہی زور سے ٹوٹے ہیں سعدؔ اب کے۔کہ ہم محفوظ رہتے تھے انائوں میں‘‘یہاں کوئی کسی کا پرسان حال نہیں۔مجھے پنجابی محاورہ استعمال کرنے میں تامل ہو رہا ہے مگر جو بلاغت اس میں کسی اور نہیں کہ ’’لچا سب تو اچا‘‘ وہی کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس اور لاٹھی بھی تو اسی کی ہے جو طاقتور ہے۔ ویسے طاقت کی اپنی زبان ہوتی ہے جو کمزوروں پر چلتی ہے۔ جیسے بڑے چوروں کی چھوٹے چوروں پر۔کبھی کبھی میں یہ سوچ کر چپ ہو جاتا ہوں کہ شاید یہ فطرت کا اصول ہے کہ کتا بلی کو نہیں چھوڑتا اور تو اور ایک چڑیا جو معصومیت کی علامت ٹڈے ٹڈیوں کو پکڑ کر ہڑپ کر جاتی ہے۔ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن اندر سے جواب آتا ہے کہ نہیں ایسا نہیں ہے کیونکہ انسان تو جانور نہیں ہے اسے اللہ نے عقل دی ہے شعور دیا اور فکر دی ہے۔مگر کوئی کیا کرے کہ جسے ان صلاحیتوں کا استعمال ہی نہ آئے اور ان کا منفی استعمال کرے اور اس کے اندر کی حیوانیت اس پر غالب آ جائے۔میں شیکسپیئر کے ایک ڈرامے میں پڑھا رہا تھا کہ ایک کردار ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جانور سے ذرا زیادہ اور انسان سے کچھ کم ہے‘‘ بس کہ مشکل ہے ہر اک کام کا آسان ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انسان ہونا بات میں کر رہا تھا طاقت کی کہ وہ بھی تو اپنا اظہار چاہتی ہے اور اس اظہار میں وہ دوسروں کو پامال کرتی ہے اور دوسروں کو احساس کمتری میں ڈالتی ہے خود کو ہر قانون اور ضابطے سے ماورا ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے ایک تکبر اور ایک رعونت کہ خود کو ماورائی اور ہوائی مخلوق کی صورت دیکھتی ہے لیکن دلچسپ بات یہ کہ وہ طاقت باقی سب کو قانون اور ضابطوں میں دیکھنا چاہتی ہے۔ دوسروں کے لئے جمہوریت کی قائل ہے اور پھر جب جمہوریت میں کسی کے پاس اندھی طاقت آ جائے تو وہ آمریت میں بدل جاتی ہے۔یہ سب ایک رویے کا نام ہے خون کا ابال اقتدار اور اختیار کا نشہ جو سب سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔اوہو ! میں تو ایک تشدد کی کہانی کہنے والا تھا: وہ تشدد تھا الٰہی توبہ میں تو مجرم کی خطا بھول گیا ابھی میں ایک پروگرام میں فیصل آباد میں ایک طالبہ پر ہونے والا بہیمانہ ظلم دیکھ رہا تھا کل سے ہی پورے ملک میں اس کے کلپ وائرل ہیں اور ہر پاکستانی افسردہ ہے کہ یہ صوبہ پنجاب میں ہو رہا ہے جہاں کی پولیس پر شہباز شریف ہی نے نہیں سب نے نوازشات کیں۔ سی پی او عمر سعید باتیں تو بہت اچھی کر رہے تھے کہ جیسے سچ مچ ملزموں کو قرار واقعی سزا ملے گی مگر ایسا ہوتا نہیں ہے۔کوئی ایک واقعہ ہو تو بندہ بات کرے۔قصور کے شرمناک واقعہ سے لے کر جس میں بچوں کے ساتھ زیادتی کرکے فلمیں بنا کر بیچی جاتی تھیں کتنے ہی واقعات ہیں پیچھے کوئی نہ کوئی سیاستدان یا طاقتور آدمی نکل آتا ہے۔اس واقعہ میں بھی ایک طاقتور آدمی شیخ دانش۔ڈاکٹر خدیجہ پر تشدد کرنے والی ایک تو اس کی بیٹی اینا ہے اور دوسری ماہم اس کی بیوی ہے۔ڈاکٹر خدیجہ سے جوتے چٹوائے گئے۔شیخ دانش کے بھی اور اینا کے بھی۔تفصیل کی ضرورت نہیں کہ آپ سب کچھ سوشل میڈیا پر دیکھ چکے ہیں۔یہ بھی طاقتوروں پر ہے کہ ظالم مظلوم اور مظلوم ظالم بن جاتے: حاکم نے جو کہا وہی مقبول ہو گیا قانون اس کے پائوں کی بس دھول ہو گیا آپ اس طاقت کو بڑے پیڈسٹل پر دیکھ لیں آپ کی طبیعت صاف ہو جائے گی عمران خاں خود آج تک تقریریں کرتے آئے ہیں کہ یہاں کمزور جیلوں میں ہے اور طاقتور باہر آج شہباز گل کا واقعہ ہوتا ہے تو وہ کس طرح شہباز گل کے ساتھ کھڑے ہیں اور کس طرح اس رویے کے باعث اسلام آبادی پالیسی کے مقابل پنجاب کی پولیس آن کھڑی ہے کہ مسئلے سارے انائوں کے ہیں۔رینجرز کو مداخلت کرنا پڑی۔ایک صرف فیصل جاوید ہے کہ جس نے برملا کہا کہ شہباز گل کا بیان ناقابل قبول ہے اور قانونی کارروائی ضروری ہے اس تفصیل میں بھی نہیں جائوں گا کہ آپ سب نے دیکھا کہ موصوف گل کس طرح رینک اینڈ فائل میں زہر اتار رہا تھا چیلے طاقتوروں کی باتیں ہیں۔ عمران خاں نے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کر دیا ہے کہ وہ ایف آئی اے کے سامنے ہرگز جواب دہ نہیں۔منیر نیازی یاد آئے: کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے اب ایف آئی اے نے امریکہ اور برطانیہ سے مدد طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے یعنی کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔اس پہلے آپ مولانا فضل الرحمن کی طاقت کا مظاہرہ بھی دیکھ چکے کہ جب انہیں نیب نے طلب کیا تھا۔انہوں نے تو یہ کہا تھا کہ نیب کو جرأت کیسے ہوئی کہ انہیں طلب کرے۔ پھر کیا ہوا بات آئی گئی ہو گئی۔اس سے بھی پہلے جب مریم نیب میں پیش ہونے گئیں اور ساتھ پتھروں سے بھری وین تھی اور لوگوں کا ہجوم۔نیب نے اپنے دروازے بند کر لئے۔یہ طبقاتی نظام ہے اور تو اور آپ سڑک پر بنی زیبرا کراسنگ یا اشارے کے قریب بنی سفید لکیر کو نہیں دیکھتے کہ اگر سائیکل والا اسے چھو جائے تو سارجنٹ تھپڑ بھی جڑ دیتا ہے۔اگر موٹر سائیکل ہو تو چابی نکال لیتا ہے۔گاڑی والا ہو تو وہ کہتا ہے جی ذرا پیچھے ہٹا لیں گاڑی۔گاڑیوں کی سی سی سی کے ساتھ اس کی جی جی بڑھتی جاتی ہے۔یہ طاقتوروں کا ملک ہے جس کے پاس پیسے کی طاقت نہیں ہوتی یا اقتدار ہوتا وہ غنڈہ بن جاتا ہے اور پھر یہ غنڈے طاقتور لوگوں کی ضرورت ہوتے ہیں سب جمہوریت کے جمورے آمریت کے سہولت کار بن جاتے ہیں۔کیا ہی دلچسپ بیان شیخ رشید کا ہے کہ موجودہ حکمران قوم کے لئے عذاب ہیں ۔کیا کریں اور کدھ جائیں ایک ڈرامہ جار ی ہے۔وزیر اعظم تحفظاتی اتحادیوں کو اعتماد میں لینے چلے ہیں عوام کا کوئی والی وارث نہیں آپ کو تو تازہ دم لایا گیا تھا ۔آپ نہیں تو کوئی اور آ جائے گا۔یہ نظام تو ایسے ہی چلے گا وہ جو فیض صاحب نے کہا تھا’’دست قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے۔سب سے بڑا سوال یہ کہ وہ فیصل آباد کی طالبہ ہو یا کوئی اور انصاف کے لئے کہاں جائے بس سوئے آسمان ہی کوئی دیکھ سکتا ہے۔ہائے بے حسی: دھند لپٹی جو آکے شعلے سے جلتے جلتے بجھا دیا آخر