عجب اتفاق ہے کہ ایک روز قبل یوم یکجہتی کشمیر کے ساتھ ، خطے میں دینی اور روحانی سطح پر خواجہ خواجگان، عطائے رسول ﷺ، خواجہ معین الدین چشتی اجمیرؒ کے 810ویں سالانہ عرس اور چھٹی شریف کی تقریبات بھی عروج پر تھیں، جس کا مرکز ایک طرف شمالی ہندوستان میں اجمیر ؒ شریف اور دوسری طرف قطب البلاد لاہور ہے ، جہاں بر صغیر میں تشریف آور ہوتے ہوئے ، خواجہ بزرگ نے چِلّہ کَش ہو کہ حضرت داتا گنج بخشؒ کے فیوضیاتِ روحانیہ اور تائید باطنیہ حاصل کر کے ، دنیا کو عظیم خانقاہ اور درگاہِ مُعلّی کی حیثیت و حقیقت سے یوں آگاہ کیا : گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں راہنما جہاں عالمی تصوّف کانفرنس کے بین الاقوامی مندوبین اور انٹر نیشنل سکالرز: ’’تکثیر ی معاشرے کی تشکیل میں چشتی تصوّف کاکردار‘‘ کے موضوع کے ضمن میں بالخصوص بر صغیر میں صوفیاء کی مساعی اور موجودہ عہد میں اس سے اکتساب کے عنوان کو بطور خاص موضوع بحث بنایا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ لاہور کب تشریف لائے ؟اور یہاں کتنا عرصہ قیام فرمایا ، اس پر قدیم تذکرہ نگاروں نے اپنی اپنی آراء خوب پیش کی ہیں۔ مولانا سیّد عبدالباری اجمیرؒ ی نے اپنی تنقیدی تالیف " تاریخُ السّلف" میں لکھا ہے کہ حضرت خواجۂ بزرگ588ھ میں لاہور وارد ہوئے ، اور یہاں کچھ عرصہ قیام فرما ہو کر ، 589ھ، میں اجمیر شریف تشریف فرما ہوئے ، لاہور میں قیام کے حوالے سے قدیم اور معتبر و مستند محققین نے اس امر سے اتفاق کیا ہے کہ لاہور میں حضرت شیخ حسین زنجانی ؒ کے ساتھ آپؒ کی خصوصی ملاقاتیں ہوئیں۔ ابو الفضل نے آئین اکبری اور ان دونوں بزرگوں کی ملاقات کو تحریر کیا ۔ سیر العارفین میں مشہور تذکرہ نویس اور صوفی بزرگ شیخ جمالی نے لکھا کہ شیخ المشائخ حسین زنجانی ؒ جو حضرت شیخ سعد الدین حمویہ کے مرشد ہیں، ان دنوں بقیدِ حیات تھے ، حضرت زبدۃُ المشائخ والاولیاء معین الحق والدین خواجہ معین الدین چشتیؒ اور حضرت شیخ المشائخ والاولیاء شیخ حسین زنجانی قدس سرۂ کے درمیان حد سے زیادہ ربط و محبت کا اظہار ہوا، گویا حضرت خواجہ غریب نواز جب لاہور تشریف فرما ہوئے تو یہ میراں حسین زنجانی ؒ کا عہد تھا ، اور دونوں جلیل القدر ہستیوں کی باہم محبت و موانست ایک فطری امر تھا ۔ اب یہاں پر ایک اور روایت جس کا عوامی طور پر بڑا شہرہ ہے ، اور کسی نہ کسی طرح فوائد الفواد میں درج ہونے کے سبب معتبر بھی گردانی جاتی ہے ، کہ شیخ حسین زنجانی ؒ اور شیخ علی ہجویر ی ؒ دونوں ایک ہی پیر کے مرید تھے جو کہ اپنے وقت کے قطب تھے ، حضرت داتاگنج بخشؒ کی آمد سے قبل ، وہ لاہور میں مقیم اور مسند رشدو ہدایت پرفائز تھے ۔ حضرت داتا گنج بخشؒ، جو کہ اپنے شیخ ابو الفضل محمد بن الحسن الختلی سے بیعت اور صاحبِ اجازت و خلافت تھے اور وہ دمشق کے قریب بیت الجن میں قیام فرما تھے ، نے حضرت علی بن عثمان الہجویری کو حکم دیا کہ تم لاہور جائو اور دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دو، حضرت داتاؒ صاحب نے عرض کی کہ وہاں تو میرے پیر بھائی حسین زنجانیؒ موجود ہیں، آپؒ کے شیخ نے دوبارہ فرمایا :تم جائو، اب حضرت علی ہجویریؒ نے اپنے شیخ کے حکم کی تعمیل میں رخت سفر باندھا ، طویل مسافت طے کرتے ہوئے جب لاہور تشریف فرما ہوئے ، تو رات کا وقت تھا ، علی الصبح دیکھا کہ لوگ ایک جنازہ باہر کی سمت لارہے تھے ، معلوم ہوا کہ یہ حضرت شیخ حسین زنجانیؒ کا جنازہ ہے ، اس پر اپنے شیخ کے حکم کی حکمت ان کی سمجھ میں آئی ۔حضرت داتاگنج بخش ؒ کا وصال 465ھ ہے جبکہ آپؒ کے تذکرہ نویس اس امر پر اتفاق کرتے ہیں کہ لاہور میں آپؒ نے تقریبا تیس سال تک قیام فرمایا ، اس روایت کے مطابق ، آپؒ کی آمد چھٹی صدی ہجری کی تیسری دھائی میں مانی جائے گی ، اور اس تناظر میں حضرت الشیخ حسین زنجانی کا سالِ وصال بھی اسی دورانیئے میں جانا جائے گا ۔ اس روایت پر صاحبان نقدو نظر نے بڑی جرح کی ہے ۔ مقامی مجاور اور سجادگان اس روایت کو بھی معتبر مانتے ہیں اور اس سال بھی جب میں حضرت حسین زنجانی ؒ کے عرس پر رسم چادر پوشی ادا کرنے کے لیے 29 اکتوبر2021ء کو گیا تو یہ آپؒ کا 1013 واں سالانہ عرس تھا ، دوسری طرف مولوی نور احمد چشتی اور مفتی غلام سرور لاہوری نے، حضرت حسین زنجانی کا سال ِ وصال 600ھ اور 606ھ لکھا ہے ۔ گزشتہ صدی کے ایک اور بزرگ سیّد محمد معصوم شاہ گیلانی ساکن چک سادہ شریف کی ایک روایت، جس کو حکیم موسیٰ امر تسری نے بیان کیا ،ان کے مطابق:شاہ صاحب فرماتے ہیںکہ میں نے حضرت الشیخ زنجانی ؒ کے مزار پر نصب شدہ وہ پتھر دیکھا ہے جس پر آپؒ کا سالِ وصال600ھ درج تھا ، اور یہ پتھر مزار شریف کی مرمت کے وقت اُترا تھا ، اور نظروں سے اوجھل ہوگیا ، ہم ایسے امور میں ایسی روایات ، جن میں زیادہ قدامت کا تاثر پیدا ہو ، کو معتبر جاننے کے اس لیے خواہش مند ہوتے ہیں کہ شاید یہ بھی فضیلت کی بات ہے ، حضرت داتا گنج بخشؒ کا سال وصال 465ھ ہے ،اس کے مطابق مذکورہ روایت کی روشنی میں حضرت حسین زنجانی ؒداتاؒ صاحب سے تقریباً ایک سو پِنتیس سال بعد واصل بحق ہوئے ۔اس پر حکیم محمد موسیٰ امر تسری کا کہا ہوا، زیادہ صائب اور معتبر ہے کہ حضرت داتاؒ صاحب سے پہلے تشریف فرما ہونے والے حسین زنجانی ؒ ایک مختلف شخصیت ہونگے اور انکے حالات اور مزار سے متعلق امور ، امتداد زمانہ کے سبب معدوم ہوگئے ہونگے ،اور ہم نامی کی وجہ سے بعد والے حضر ت حسین زنجانی سے متعلق روایت ، آپس میں ایک دوسرے سے منسوب ہوگئی ۔ بہر حال معتبر یہی ہے کہ حضرت خواجہ غریب نوازؒ جب لاہور تشریف فرما ہوئے تو آپؒ کی حضرت حسین زنجانی ؒ سے ملاقات ہوئی ، ازاں بعد آپ ؒلاہور سے ملتان اور پھر دہلی سے ہوتے ہوئے اجمیرؒ قیام فرما ہوئے جہاں آپ ؒبر صغیر میں سب سے بڑے سماجی انقلاب کے امین اور علمبردار قرار پائے ۔ برصغیر پاک و ہند میں قافلۂ شریعت و طریقت و معرفت کے امام، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کی ذات گرامی، بلا شبہ اُن او لوالعزم اور برگزیدہ ہستیوں میں سے اہم ترین ہیں، جنہوں نے بر صغیر کو اسلام کے نور سے منور کیا اور ظلمت و جہالت اور شرک و معصیت کی تاریکیوںمیں محبت ، انسان دوستی ، رُشدو ہدایت ، نیکی ، تقویٰ اور ایثار و بھائی چارے کی شمع فروزاں کی ۔ آپؒ نے اپنے اخلاق و کردار اور افعال و اعمال کے ذریعہ اسلام کی عملی تعبیر اس انداز سے لوگوں کے سامنے پیش کی ، جس سے لوگ جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ خواجۂ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیرؒ کے طرزِ زیست اور اسلوب ِ احیات سے روشنی حاصل کرنے والوں نے دین کی تبلیغ اور ترویج کے لیے دینی اور اسلامی مراکز قائم کیے اور اپنی زندگیوں کو اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کردیا ۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ کی ذات اور آپؒ کی تعلیمات علم و حکمت کا ایک بے بہا خزانہ ہے ۔ اہلِ علم آپؒ کے افکار و تعلیمات سے علم و عرفان کے موتی چُنتے اور اپنی زندگیوں کو نورِ معرفت سے بہرہ مند کرتے ہیں۔