مملکت خداداد پاکستان آج جس دوراہے پر کھڑا ہے اس میں عوام چکی کے دونوں پاٹ کے درمیان پس رہے ہیں '' لپس ''اور ''فیکٹ''کا آپس میں کوئی تعلق نظر نہیں آ رہا ۔ سابق ترک وزیر اعظم پروفیسر ڈاکٹر نجم الدین اربکان ایک راسخ العقیدہ مسلمان اور ترکی میں موجودہ خاموش انقلاب کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ آج سے چند سال قبل تک کسی کو یہ یقین نہیں تھا کہ ان کی جدوجہد کے نتیجہ میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ صدر رجب طیب اردگان کا اقتدار تک پہنچنا ان کی مسلسل جدو جہد کا ثمر ہے مختلف ادوار میں ان کی سیاسی جماعتوں پر پانچ بار پابندی عائد کی گئی لیکن وہ ہر پابندی کے بعد ایک نئے ولولہ اور نئے عزم کے ساتھ میدان عمل میں اترے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سخت ترین حالات میں بھی وہ جلا و طن ہوئے اور نہ ہی اداروں کے خلاف تصادم کی پالیسی اختیار کی بلکہ ''گراس روٹ لیول''پر ا پنی جماعت کی جڑیں مضبوط کرنے میں مصروف رہے ،پروفیسر اربکان کبھی بین الاقوامی گریٹ گیم کا حصہ بنے اور نہ ہی اپنی جماعت کو'' پرائیوٹ لمیٹیڈ'' بنایا اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی جماعت کو ''ریموٹ کنڑول'' سے چلانے سے بھی ہمیشہ محفوظ رکھا کبھی ایوان اقتدارمیں براجمان مخالفین کو بزور قوت نکالنے کی کوشش کی اور نہ ہی ایوان اقتدار تک پہنچنے کیلئے عوام کو فوج سے لڑایا ،ہر حکومت وقت کے ہر ظلم کا جواب نہایت تحمل اور دانشمندی سے دیا دوراندیشی سے عوام کی سوچ بدلی ان کو حقیقی مذہبی اقدار سے روشناس کرایا۔ پروفیسر اربکان اعلی تعلیم یافتہ سیاست دان تھے انھوں نے ا ستنبول سے مکینیکل انجنیئرنگ اور جرمنی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ان کے زمانہ طالب علمی میں سیکولر ازم کا طوطی ترکی اور جرمنی میں سرچڑھ کر بول رہا تھا تاہم نجم الدین اربکان کی سوچ اور فکر بڑی واضح تھی ان کا تعلق تصوف کے سلسلہ نقشبندیہ سے تھا انھوں نے اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنا راستہ ہموار کیا ان کا طرز فکر اتنا مقبول ہوا کہ اس نے ترکی کے شراب خانوں، قحبہ خانوں اور نائٹ کلبوں پر دستک دی اپنی منفرد جدوجہد کے نتیجہ میں وہ ترک عوام کے ہر دلعزیز لیڈر بن کر ابھرے جس نے اسٹیبلشمنٹ کی نیندیں حرام کردیں نجم الدین اربکان نے اپنے طویل سیاسی سفر کا آغاز ''ملی نظام پارٹی'' سے کیا لیکن بہت جلد ہی ''ملی نظام پارٹی'' سیکولر نظام کیلئے چیلنج بن گئی جس کے بعد اس جماعت پر پابندی عائد کردی گئی لیکن نجم الدین اربکان نے اپنا منشور تبدیل کیا اور نہ ہی خوف زدہ ہوئے بلکہ ایک نئی سیاسی جماعت ''ملی سلامت پارٹی'' سے اپنا سفر جاری رکھا مقتدر حلقوں میں نظام کے بعد سلامت کو بھی پسند نہ کیا گیا کچھ عرصہ میں ہی نومود جماعت ''ملی سلامت پارٹی'' کی صدائیں بھی ایوان اقتدار میں سنائی دینے لگیجس کے بعد نجم الدین اربکان کی اس جماعت پر بھی پابندی عائد کردی گئی بعض حلقوں میں یہ خیال کیا جارہا تھا کہ اس بار نجم الدین اربکان کی جماعت پر پابند ی سے ان کے دوستوں اور رفقاء کا شیرازہ بکھر جائیگا کالعدم'' ملی سلامت پارٹی'' کی قیادت سر جوڑ کر بیٹھ گئی کہ مستقبل کا کیا لائحہ عمل اختیار کیا جائے؟ مقتدر حلقوں کو ''نظام'' کی تبدیلی پسند آئی ہے اور نہ'' سلامتی '' کا راستہ ، اس موقع پر نجم الدین اربکان نے سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تصاد م کا راستہ اختیار کیا اور نہ ہی خاموشی اپنائی بلکہ ایک نئے نام ''رفاہ پارٹی '' سے سیاسی جماعت رجسٹرڈ کرائی اور اپنے قافلہ کو رواں دواں رکھا تاہم اس بار نجم الدین اربکان عوام میں تبدیلی کا استعارہ بن کر سامنے آئے ترک عوام کو اس بات کا یقین ہو گیا کہ نجم الدین اربکان انہیں تنہا چھوڑ یں گے اور نہ ہی سیاسی میدان سے فرار کا راستہ اختیار کریں گے لیکن ترک سیاسی ''گرو ''پروفیسر نجم الدین کی ''چال''سمجھ چکے تھے۔ نظام ، سلامت کے بعد رفاہ کے چرچے بھی زبان زد عام ہونے لگے ایک عرصہ سے ایوان اقتدار میں براجمان سیاسی جنتا کو رفاہ پارٹی کی سیاسی میدان میں کامیابی ہضم نہیں ہو رہی تھی رفاہ پارٹی کیپلیٹ فارم سے موجودہ ترک صدر رجب طیب اردگان استنبول کے مئیر منتخب ہوئے، مئیر منتخب ہونے کے بعد اردگان نے عوامی فلاحی منصو بوں کا جال بچھا دیا اور اس شہر کی تقدیر کو بدل کے رکھ دیا اس طرح ترکی کے دیگر شہروں میں بھی رفاہ پارٹی عوام کی خدمت میں پیش پیش رہی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے نتیجہ میں ایک بار پھر نجم الدین اربکان کی جماعت رفاہ پارٹی پر بھی پابند ی کردی گئی ۔ اپنی کالعدم جماعت کی ایگزیکٹو کونسل کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر اربکان نے تاریخی جملے کہے انہوں نے کہا کہ پانی اپنا راستہ خود بناتا ہے منزل پر پہنچنے سے قبل اس کا ٹکرائو چٹانوں سے ہوتا لیکن پانی کبھی رکتا ہے اور نہ ہی تھمتا ہے بلکہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہتا ہے میں آپ کو یقین سے کہہ سکتا ہوں ہم اپنی منزل کی جانب بڑھ رہے ہیں اور یاد رکھیں رکاوٹیں آئیں گی لیکن ہمیں اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دم لینا ہے ہمیں ترکی کے موجودہ معاشرہ میں رہ کر ہی کام کرنا ہے اور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کا راستہ اختیار نہیں کرنا چند روز میں ہم اپنی نئی جماعت سعادت پارٹی سے کام کا آغاز کریں مجھے امید ہے کہ'' سعادت پارٹی'' ملک و قوم اور امت مسلمہ کیلئے سعادت کا باعث بنے گی ، ایک وقت آیا کہ سعادت پارٹی کے گرد بھی گھیرا تنگ کردیا گیا لیکن پروفیسر اربکان اور ان کے ساتھیوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ فضیلت پارٹی کے پلیٹ فارم سے اپنی منزل پر پہنچنے کا سفر جاری رکھا ، پروفیسر اربکان آج اس دنیا میں نہیں ہیں تاہم ان کی جد وجہد کے نتیجہ میں رجب طیب اردگان اور ان کی ٹیم بر سر اقتدار ہے ، ترکی میں حقیقی تبدیلی لانے کا سہرا بلا شبہ پروفیسر اربکان کے سر ہے آج مملکت خداداد کو بھی ایسی ہی حقیقی تبدیلی اور افراد کی ضرورت ہے ۔