جھنگ سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے رہنما شیخ وقاص اکرم نے ٹی وی شو پر پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چن صاحب کو پرویز مشرف دور میں سر پر دو ڈنڈے مارے گئے تھے، جس کا واویلا آج تک یہ کرتے ہیں اور اسے جمہوریت کیلئے قربانی قرار دیتے ہیں، انھوں نے ندیم افضل چن سے کہا کہ آپ خود پر برسنے والے ان ڈنڈوں کو آج تک نہیں بھولے تو پھر جن نوجوانوں، بچوں، بچیوں اور خواتین پر ڈنڈے برسائے جا رہے ہیں، کیا وہ بھول جائیں گے؟ انھوں نے جھنگ کے روایتی پنجابی انداز کو اپناتے ہوئے کہا کہ ندیم افضل چن غلط کو غلط تو کہو، جواباً چن صاحب نے کہا کہ جن ایف اے، ایف ایس سی اور ماسٹرز کے بچوں، بچیوں پر تشدد کیا جا رہا ہے، وہ غلط ہے، خواتیں کے ساتھ برتا جانے والا سلوک بھی غلط ہے، اب سوال یہاں کھڑا ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم اتحاد کے نام پر 13 جماعتیں اقتدار میں ہیں، یہ تمام جماعتیں جمہوریت کی داعی اور چیمپیئن ہونے کی دعویدار ہیں، اگر ان کی صفوں میں شامل ارکان اسمبلی اور سیاسی رہنماؤں کو ادارک ہے کہ ظلم ہو رہا ہے، غلط طریقے سے طاقت کے استعمال کو یقنی بنایا جارہا ہے تو پھر بھی ایسا طرز عمل کیوں اپنایا جارہا ہے۔؟ 9 مئی کو مادر وطن میں جو کچھ ہوا، اس پر چئیرمن تحریک انصاف عمران خان کا مطالبہ سو فیصد درست ہے کہ آزاد کمیشن کے ذریعے انکوائری ہونی چاہئے جبکہ حکومتی کیمپ سے فقط تابڑ توڑ حملوں کا سلسلہ جاری ہے،جس پر کہنا آسان ہو چکا کہ حکومت اداروں کو تحریک انصاف سے لڑانا چاہتی ہے۔ اس کشمکش میں ملک کے نوجوان طبقے پر پولیس کا قہر بن کر ٹوٹ جانا، معاشرے میں بہت سارے منفی رجحانات کو جنم دے گا، محض تحریک انصاف کی حمایت کو اتنا بڑا جرم بنا دینا، جمہوریت اور آئین کی نفی ہے۔ کسی جمہوری معاشرے میں کبھی بھی پاپولر پارٹی کے حامیوں کو اس طرح سے ڈیل نہیں کیا جاتا۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ جہاں اس طرح سے اندھی طاقت کا استعمال ہوا، معاشرہ کا توازن بگڑتے بگڑتے اس نہیج پر آن پہنچا جہاں طاقت خود اس بوجھ کے ملبے تلے آ گئی۔ 9 مئی کو جو ہوا، اس کے اصل حقائق سامنے آنے چاہیں کہ یہ کیوں ہوا، کیسے ہوا؟ ناکہ اس کی آڑ میں حکمران اپنے سیاسی انتقام کی آگ کو مذید بڑھاوا دیتے چلے جائیں۔ ان دنوں جس بے رحمانہ انداز میں لوگوں کے گھروں میں پولیس داخل ہو کر چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کررہی ہے، خواتیں، بچوں سے بدسلوکی کی جارہی ہے، مخالفین کے گھروں میں بدترین توڑ پھوڑ کی جا رہی ہے، خواتین پر تشدد اور ان کی تذلیل کرنے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں، نوجوان پر ریاستی ظلم و جبر کے ہتھکنڈے اپنائے جارہے ہیں۔ صحافیوں کو گرفتار کیا جارہا ہے، لاپتہکیا جا رہا۔ دکھی دل سے کہنے پر مجبور ہوں کہ حکومت میں شامل تمام جماعتوں نے جمہوریت کی اقدار کی اپنے اقتدار کے 13 ماہ میں نفی کی ہے۔سیاست میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا لیکن آئین، قانون اور جمہوریت حدود کے تعین کے ضامن ہوتے ہیں، سیاسی میدان میں پنجہ آزمائی کا حق 1973ء کے آئین کے مطابق ہر سیاسی جماعت اور اس کے کارکن کو ہے مگر پی ڈی ایم اتحاد اس حق کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں اور دوسری طرف عوام کی اکثریت تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ ہے۔ پی ڈی ایم حکومت نے پہلے عمران خان اور تحریک انصاف کو ہر لحاظ سے ریاستی ظلم و جبر کا نشانہ بنایا، بات نا بن سکی تو اب 9 مئی کے واقعات کو جواز بنا کر عوام پر اس طرح کے ہتھکنڈوں کو آزما رہی ہے ۔ مقصد خوف و ہراس پھیلانا ہے، سوال مگر یہ ہے کہ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ جواب بہت آسان ہے، 13 ماہ سے متواتر حکمرانوں کو سمجھایا جارہا تھا کہ ان کے اس طرح کے ہتھکنڈوں سے پی ٹی آئی اور عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگا، حکمران نہ سمجھ سکے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے، عمران خان ہاتھ میں سروے رپورٹ پکڑ کر قوم سے اپنے خطاب میں کہتے ہیں کہ ان کی 70 فیصد عوامی مقبولیت ان کا جرم ہے۔ حکومت نے ان دنوں تحریک انصاف اور عمران خان کے علاوہ ان کے حامی عوام کو حکمرانوں نے نشانے پر رکھ لیا ہے، اس کا رد عمل آنے والے دنوں میں بہت سخت ہوسکتا ہے۔ کتنے روز پولیس کے ذریعے عام پاکستانیوں کی گرفتاریاں کی جاسکتی ہیں، ان پر تشدد کیا جاسکتا ہے؟ کتنے دن؟۔ بہت ہی بہتر ہوگا کہ 9 مئی کے واقعات کی تہہ تک جانے کی غرض سے کمیشن قائم کیا جائے، جس کا مطمع نظر حقائق کی پڑتال ہو نہ کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو نشانے پر لانا، ان دنوں تو عام آدمی سوال کناں ہے کہ پولیس فیصل آباد کے مین روڑ پر وفاقی وزیر داخلہ کے ڈیرے کو محفوظ رکھنے میں کامیاب رہی، پھر لاہور، پشاور اور راولپنڈی وغیرہ میں اس طرح کے دلخراش واقعات کیسے رونما ہوگئے؟ اس طرح کے بیشتر سوالات کی کھوج لگانے کیلئے خصوصی کمیشن کا قیام ضروری ہے، لیکن اگر ایسا کوئی منطقی راستہ نہیں اپنایا جاتا اور اسکے برعکس تحریک انصاف کو کالعدم قرار دینے یا کوئی انتہائی قدم اٹھایا جاتا ہے تو اس کے نتائج بھی غیر معمولی ہوں، مثال کے طور پر خوف و ہراس کے ذریعے احتجاج کو روک لیا جاتا ہے، کیا ایسا ردعمل کو روک پائے گا؟ ردعمل مختلف انداز میں آئیگا۔ فی الوقت بھی عوام کا سوال ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم پر 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات تو نہیں ہوسکے مگر کے یو آئی ف کے سربراہ نے ریڈ زون میں داخل ہو کر احتجاج اور جلسہ کیا، جس سے مریم بی بی نے بھی خطاب کیا لیکن قانون حرکت میں نہیں آیا، دراصل حقیقت یہی ہے کہ عدم توازن، ناانصافی اور طاقت کا استعمال کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ کئی مسائل کی جڑ ہے، جس کے شکار اسے بھلا نہیں پاتے، جیسے ندیم افضل چن نہ بھلا سکے، بھولنے لگے تو شیخ وقاص نے یاد کروا دیا۔