پاکستان تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے، بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور سماجی استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت کے معاشی ماہرین کی کوششیں کامیاب نہیں ہو رہیں۔ملک تباہ کن سیلاب،بلند مہنگائی، سیاسی بحران اور دہشت گردی کی بحالی سمیت سنگین چیلنجزسے دوچار ہے۔ عوام ملک کے سیاسی و معاشی بحران پر شدید متفکر ہیں، وہ حکومت کی جانب سے محض بیرونی قرضوں پر انحصار کی پالیسی کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اس بحران کی وجوہ، نتائج اور ممکنہ حل کے بارے میں ماہرین اقتصادیات کے تحفظات حوصلہ افزا امید نہیں دے پا رہے ، پاکستان برسوں سے بڑے مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو چلا رہا ہے،جو کم ٹیکس محصولات، زیادہ اخراجات، اور کمزور برآمدی کارکردگی کی عکاسی کرتا ہے۔آمدن و خرچ کے عدم توازن نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو شدید ضرب پہنچائی ہے،ملک کے اقتصادی بحران کے دوران سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ چین کی جانب سے ایک ارب ڈالر پاکستان کو مل گئے ہیں، جس کے باعث مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیںلیکن، اس کے باوجود زر مبادلہ کے ذخائر اقتصادی بحران کم کرنے اور درآمدات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوںکی وجہ سے ملک کو2022ء کے موسم گرما میں تباہ کن سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا جس سے 80 لاکھ افراد بے گھر اور ملک کو تخمینہ 30 بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ سیلاب کی وجہ سے زرعی پیداوار متاثر ہوئی اور، بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچنے سے غذائی عدم تحفظ میں اضافہ ہوا۔مئی 2023ء میں مہنگائی کی شرح38فیصد رہی، جو 1957ء کے بعد بلند ترین سطح ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خاں کی مبینہ کرپشن کے الزام میں گرفتاری کے بعد سے بے امنی،سیاسی و مالی بحران نے وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں اتحادی حکومت کمزوری کا شکار ہے،جواپریل 2022 ء میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد معیشت بحالی و مہنگائی ختم کرنے کے دعوئوں کے ساتھ حکومت میں آئے ، لیکن معیشت کے بجائے مہنگائی کا پہیہ گھومتا جارہا ہے، دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں اور عوام کے دباؤ کا بھی سامنا ہے،سیاسی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے غیر ملکی سرمایہ کاری کا ماحول نہیں بن پاریا، اہم اصلاحات کے نفاذ میں تاخیر کی وجہ سے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کا حصول بھی مشکل امر بن گیا ہے۔ بنیادی طور پر ملک کے شمال مغرب میں دہشت گردی اور شورش کے دیرینہ خطرات کا سامنا ہے۔ 2021 ء میں افغانستان میں افغان طالبان کی اقتدار میں واپسی نے کالعدم ٹی ٹی پی جیسے عسکریت پسند گروپوں کی حوصلہ افزائی کی ہے، جس نے فروری 2023 ء میں پشاور کی ایک مسجد میں خودکش بم دھماکے کی ذمہ داری قبول کی، جس میں 93 افراد شہیداور 221افراد زخمی ہوئے۔ پاکستان کے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات’’ تیل دیکھو، تیل کی دھار دیکھو‘ ‘کے موافق ہو گئے ہیں، الیکشن کا ماحول بنانے کا آغاز ہوگیا ہے۔ معیشت میں بحران کے نتیجے میں غربت کا مزید بڑھنے کا خدشہ ہے،ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ غریبوں کی مدد کے لیے فیصلہ کن امداد اور بحالی کی کوششوں کے بغیر، قومی غربت کی شرح 2.5 سے 4 فیصد پوائنٹس تک بڑھ سکتی ہے، جس سے 5.8 سے 9 ملین افراد خطہ غربت سے نیچے آگئے ہیں۔ زیادہ مہنگائی نے غریبوں پر بھی غیر متناسب اثر ڈالا،جو اپنی آمدنی کا بڑا حصہ خوراک اور دیگر ضروری چیزوں پر خرچ کرتے ہیں۔ پاکستان پر بیرونی قرضوں کی وجہ سے ڈیفالٹ کے خطرات منڈلا رہے ہیں، دستیاب اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان کا بیرونی قرضہ جون 2023 میں تقریباً 112 بلین ڈالر یا 32.1 ٹرلین روپے جبکہ پاکستان کا ملکی قرضہ مارچ 2023 کے اختتام پر 59.2 ٹرلین روپے ہے۔ اس کے مطابق، پاکستان کا کل قرضہ جون 2023 میں تقریباً 91.3 ٹرلین روپے ہے، جو پاکستان کی گروس ڈومسٹک پروڈکٹ (GDP) کے 91.2 فیصد کے برابر ہے۔ مالی سال 2024 کے لیے بیرونی قرضوں کا تخمینہ تقریباً 22 بلین ڈالر لگایا گیا ہے۔ پانچ سالہ کرنسی ڈیفالٹ سویپ (CDS) انڈیکس کی نئی بلندی تک پہنچ گیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کے بیل آؤٹ پیکج کے نویں جائزے کے ارد گرد سیاسی بحران اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ڈیفالٹ کا خطرہ تیزی سے بڑھ کر 79.33 فیصد ہو گیا ہے۔ پاکستان کو اپنے قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے اور ترقیاتی اور سماجی اخراجات کے لیے وسائل کو آزاد کرنے کے لیے اپنے دو طرفہ اور کثیر جہتی قرض دہندگان سے قرض میں ریلیف ، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع اور اپنی ٹیکس چھوٹ کو معقول بنانے اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے، جو دائمی خسارے، گردشی قرضے، بجلی کی قلت اور کم کارکردگی کا شکار ہے۔ بالخصوص ملک کو اپنی تجارت اور سرمایہ کاری کے ماحول کو بڑھانے، جدت اور پیداواری صلاحیت کو فروغ دینا ناگزیر ہوچکا ہے۔ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچنے اور میکرو اکنامک استحکام بحال کرنے کے لیے آئی ایم ایف بیل آؤٹ ہی واحد آپشن ہے، لیکن IMF کے ساتھ بیل آؤٹ پروگرام ڈیڈ لاک کا شکار ہے، جو کہ اپریل 2023ء میں حکومت کی جانب سے مالیاتی استحکام،توانائی کی اصلاحات، اور شرح مبادلہ میں لچک کے لیے طے شدہ اہداف کو پورا کرنے میں ناکامی کی وجہ سے معطل کر دیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے، ٹیکس ریونیو بڑھانے،سبسڈی میں کمی،اضافے کے لیے سخت اقدامات کرے۔ درحقیقت پاکستان کو شدید اقتصادی بحران کا سامنا ہے جو اس کے استحکام اور ترقی کے لیے اہم چیلنجز کا باعث ہے۔