پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کے درمیان شراکت اقتدار کے معاملے پر ہونے والے مذاکرات کا پانچواں مرحلہ بے نتیجہ ختم ہو گیا ہے۔تازہ امید بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف کی ملاقات سے لگائی جا رہی ہے ۔ہر مذاکراتی مرحلے کے اختتام پر امید کی آس ایک نئے مرحلے کی اطلاع کے ساتھ جوڑ دی جاتی ہے۔الیکشن سے پہلے ہر جماعت حکومت سازی کے لئے بے چین دکھائی دیتی تھی، اب حالت یہ ہے کہ اکیلے حکومت بنانے پر تیار نہیں۔نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ حکومت سازی میں تاخیر کی وجہ منقسم مینڈیٹ کو قرار دے رہے ہیں۔قومی اسمبلی ، بلوچستان اور پنجاب اسمبلی میں چونکہ کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو سکی اس لئے حکومت سازی کے لئے کسی دوسری جماعت یا متعدد جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانا ہو گی۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو یہ خدشہ ہے کہ سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت کے دوران ان کی پالیسیوں کے خلاف عوام نے ووٹ دیا ہے اس لئے ایک بار پھر محدود مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار سنبھالنے سے ان کی سیاسی ساکھ تباہ ہو سکتی ہے، خاص طور پر معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے انہیں پی ٹی آئی سے بطور اپوزیشن زیادہ تعاون ملنے کی امید نہیں۔دوسری طرف یہی وقت پاکستان کی جمہوری قوتوں کا خود کو منوانے کا ہے۔پاکستان کے لوگ مکالمہ اور بات چیت جیسے بنیادی عناصر کو سیاسی قوتوں کے ہاتھوں بروئے کار آتا دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ نمائندہ جمہوریتوں میں، مینڈیٹ عوامی حمایت کے ذریعے حکومت کرنے کی قانونی حیثیت کا نام ہے۔ مینڈیٹ انتخابات کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، ووٹر اپنی ترجیحات کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کا انتخاب کرتے ہیں۔بعد میں انتخابی نتائج کی تشریح کی جاتی ہے کہ کونسی پالیسیوں کو مقبولیت حاصل اور عوام کیا مطالبہ کر رہے ہیں ۔ اکثریتی حکومت ایک واضح مینڈیٹ فراہم کرتی ہے، جب کہ مخلوط حکومت میں شراکت دار جماعتوں کے درمیان سمجھوتے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سیاسی مینڈیٹ کا جدید تصور پہلی بار 16ویں صدی کے آس پاسابھرا اور انقلاب فرانس کے بعد سیاست کا ایک نمایاں تصور بن گیا۔حالیہ عام انتخابات میں قوم نے کسی ایک جماعت کو سادہ اکثریت کا مینڈیٹ نہیں دیا ۔بحرانوں کے شکار ملک کے بارے میں ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ منقسم مینڈیٹ اگلے چند مہینوں میں معاشی استحکام میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) سیاسی طور پر غیر مقبول لیکن ملک کے لئے اہم اقتصادی پالیسیوں کو نافذ کرنے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ اگلی حکومت آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ کرے گی۔ اس کے لیے کم از کم تین سال تک معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے سخت اقتصادی فیصلوں کی ضرورت ہوگی۔سوال یہ ہے کہ کیا ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام کو 300 یونٹس تک مفت بجلی فراہم کرنے کا عملی طور پر ناممکن وعدہ کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ان مشکل آپشنز کو قبول کرے گی؟ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) نے بھی 200 یونٹس اور قیمتوں میں 20 سے 30 فیصد کمی کا وعدہ کر رکھا ہے۔تمام صوبائی وزرائے اعلیٰ اور آرمی چیف ایس آئی ایف سی کے ممبر ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وزیر خزانہ کا عہدہ آئندہ کون سنبھالتا ہے، پی ڈی ایم حکومت اور اس کے بعد کی نگراں حکومت میں خدمات انجام دینے والے تمام سابق وزرائے خزانہ کی آرزو رہی ہے کہ معاشی بہتری لائی جا سکے۔ آئی ایم ایف سے نیا معاہدہ ضروری ہے۔ پاکستان کی معاشی بحالی کا انحصار نجکاری جیسی ساختی اصلاحات پر ہے۔ نئی مخلوط حکومت کو بنیادی اقتصادی پروگرام پر متفق ہونا چاہیے۔ مرکز میں مخلوط حکومت بنانے کے لیے تین بڑی جماعتیں سب سے آگے ہیں۔پی ٹی آئی پیپلز پارٹی اور نواز لیگ سے مذاکرات سے معذرت کر چکی ہے۔ آئندہ چند روز میں واضح ہو جائے گا کہ حکومت کس طرح تشکیل پائے گی۔ مسلم لیگ ن نے نگراں حکومت کا 100 ارب ڈالر کا برآمدی ہدف 60 ارب ڈالر کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی پیشین گوئیاں 40 بلین ڈالر سے کم کی ایکسپورٹ بتاتی ہیں۔مسلم لیگ ن کی ماضی کی پالیسیاں برآمدات پر بجٹ کے نظم و ضبط کو ترجیح دیتی ہیں۔ اپنے مختصر دور میں نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے برآمدات کو فروغ دیا۔ ان کے مطابق اگلی حکومت نیاگر بجلی کی رعایت دی تو برآمدات مزید بڑھ سکتی ہیں۔مخلوط حکومت کے تحت برآمدات میں ترقی جاری رہنی چاہیے۔ SIFC برآمدات کی ترقی کی اس پالیسی کو جاری رکھنے کی ذمہ دار ہے۔ پاکستان نئے قرضوں لے کر پہلے قرضوں کی واپسی نہیں کر سکتا اس لیے آنے والی حکومت کو فنشڈ ایکسپورٹس کو بڑھانا ہو گا۔جدید جمہوریتیں مستقل طور پر اکثریتی مینڈیٹ فراہم نہیں کرتی ہیںکیونکہ کئی جماعتیں ایک دوسرے سے مختلف پالیسیاں پیش کرتی ہیں، جس کے لیے اتحادی حکومتوں کو اپنے اراکین کے درمیان سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔امریکہ میں جماعتی نظام کے نتیجے میں ہمیشہ ایک پارٹی کو حکومت میں اکثریت حاصل ہوتی ہے جسے مینڈیٹ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ برطانیہ جیسے کچھ سیاسی نظام اکثریت کسی ایسی پارٹی کو دیتے ہیں جس نے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہوں۔ کسی بھی اتحاد پر مبنی نظام میں، ووٹرز یہ جاننے سے قاصر ہوتے ہیں کہ انتخابات کے بعد کس طرح کا اتحاد بن سکتا ہے، جس سے ووٹروں کی ترجیحات کو انتخابی نتائج سے ہم آہنگ کیا جا سکتا ہے۔امید کی جاتی ہے کہ پہلے سے نازک حیثیت اختیار کرنے والے امور کو سنگین بننے سے روکنے کی خاطر بڑی جماعتیں جلد کسی قومی ایجنڈے پر اتفاق رائے قائم کر لیں گی۔