18ویں صدی میں پیدا ہونے والے جرمنی کے کارل مارکس ہوں یا پھر روس کے ولادیمیر لینن یا پھر چین کے مائوزے تنگ، سب نے اپنے اپنے نظریات کی آبیاری کیلئے بڑی محنت کی اورقربانیاں دیں جس کے نتیجہ میں''ا سٹیٹس کو'' ٹو ٹے اور مروجہ نظام زمین بوس ہوئے، ''اسٹیٹس کو'' کے ٹوٹنے اور مروجہ نظام کے زمیں بوس ہونے سے خلاء پیدا ہوئے پھر ان خلاء کو ان کے نظریات نے پر کیا،انقلاب آئے اور سیکڑوں یاہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے ان کے نظریات کو اپنایا لیکن یہ حقیقت ہمیں تسلیم کرنا ہو گی کہ ان کے نظریات کی بنیاد ایک فلاسفی پر تھی اس فلاسفی کو عوام میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی اور اس مقبولیت کا راز ان کے نظریاتی کارکن کی ''کور ٹیم'' کی شبانہ روز اور تھکا دینے والی مسلسل جدوجہد تھی انقلاب صرف ''کور ٹیم'' کی ایک یا دو دن کی محنت کا ثمر نہیں تھا بلکہ اس کے پس پردہ ہر کارکن کی جدوجہد کی ایک مکمل داستان تھی، ذوق مطالعہ کسی بھی انسان کی سوچ کا زاویہ تبدیل کردیتا ہے اس مطالعہ کی بنیاد پر آنے والی تبدیلی عارضی نہیں ہوتی بلکہ انسان کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے ہم ان مفکرین کے نظریات سے لاکھ بار اختلاف کر یں لیکن یہ بات ہمیں ماننا ہوگی کہ ان کا اپنے نظریات کی ترویج اور کارکن سازی کا طریق کار بڑا ہی موثر تھا جس نے کارکن کے ذہن سے خوف کا خاتمہ کردیا اور سیا سی پختگی کو جنم دیا۔ مملکت خداداد پاکستان میں بھی مارکس، لینن یا مائو کے پیروکار اورحامی ہر دور میں موجود رہے ہیں اور اپنے نظریات کی ترویج کیلئے بھی کسی نہ کسی صورت کام کرتے رہے ہیں حالانکہ یہ حقیقت انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ نظریاتی مملکت میں 75سال کے دوران اس فلاسفی کو کوئی پزیرائی نہیں ملی اور نہ ہی آئندہ ملنے کا کوئی امکان ہے تاہم وہ کامیابی اور ناکامی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے نظریات کی ترویج کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں اور اس کے لئے مسلسل جدوجہد میں مصروف ہیں ، آج کا مارکس، لینن اور مائو نواز بھی اپنی نظریاتی اساس بارے سب کچھ جانتا ہے اور وہ اپنے مارکس، لینن اور مائو نواز ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے حالانکہ ماضی، حال اور شاید مستقبل میں بھی مارکس، لینن اور مائو نظریات کی کامیابی کی ہمارے خطے میں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی اس کے باوجود ا ن کے نظریات کے پیرو کاروں کا رویہ معذرت خواہانہ نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی ڈگر کے مطابق آگے بڑھتے رہتے ہیں، سوچ اور نظریات کی پختگی یقین کو جلا بخشتی ہے، یقین کی دولت کے سامنے ہر چیز ہیچ نظر آتی ہے۔ پاکستان میںذوالفقار علی بھٹو نے سوشل ازم کا نعرہ بلند کیا اور اسے کیش کرانے کی پوری کوشش کی تاہم انھوں نے لفظ سوشل ازم کو بڑے محتاط طریقہ سے استعمال کیا کیونکہ وہ اس کے ری ایکشن سے بھی آگاہ تھے ان کا نعرہ تھا کہ سوشل ازم ہماری معیشت ہے اور اسلام ہمارا مذہب ہے ذوالفقار علی بھٹو نے سوشل ازم کو صرف معیشت تک محدود ر کھنے کی بھی کوشش کی جو کہ سوشل ازم کی بنیادی فلاسفی کیخلاف ہے پھر سوشل ازم کے ساتھ اسلام کے لفظ کا اضافہ کرکے خطے میں اسلامی سوشلزم کی ایک نئی اصطلاح متعارف کرائی لیکن انھوں نے اسلامی سوشل ازم کی کوئی سمت متعین نہیں کی جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا کارکن اسلامی رہا نہ سوشل ۔ 1970ء کی دہائی میں خطے میں مارکس، لینن اور مائو نواز نظریات کا چرچا زبان زد عام تھا۔ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ بلند کرکے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کامیاب رہے لیکن ان کی یہ کامیابی دیر پا ثابت نہ ہوئی 1977ء میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ان کا خیال تھا کہ مارکس، لینن اور مائو کے پیرو کاروں کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن بھی موجودہ نظام کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکن میں نظریاتی پختگی کا فقدان تھا جبکہ مارکس، لینن اور مائو کے حامی پختہ نظریاتی تھے کارکن ذولفقار علی بھٹو کی شخصیت کے طلسم میں ضرور مبتلا تھے لیکن اپنے اس جنوں میں وہ کسی قسم کا خطرہ مول لینے کیلئے تیار نہیں تھے جس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف نے اپنے کارکن کو ایک دو بار آزمائش میں ڈالا تاہم انہیں جلد ہی اپنی'' طاقت'' کا اندازہ ہو گیا اگست 2007ء میں نواز شریف نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد سعودی عرب سے براستہ لندن اسلام آباد کی اڑان بھری، ان کا خیال تھا کہ مسلم لیگ (ن) کا کارکن اور قیادت ان کی واپسی کا سن کر سڑکوں پر نکل آئے گی اور ان کا شاندار استقبال کریگی لیکن ایسا نہ ہوا اس موقع پر مسلم لیگ (ن) حکومت کوٹف ٹائم بھی نہ دے سکی(ن) لیگی قیادت میں سے کوئی بھی اسلام آباد ائیر پورٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوا اور نہ ہی کسی نے یہ خطرہ مول لینے کی جسارت کی ،ہر کسی نے پولیس کی کسی چوکی پر کھڑے ہوکر اپنے فوٹو سیشن کرائے اور اپنے قائد نواز شریف کو ارسال کردئیے کہ جناب ہم نے ہر طرح سے ائیر پورٹ تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن کسی نے آگے ہی نہیں بڑھنے دیا آپ تک پہنچنے کے جرم میں ہمیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ پولیس یاترا کرائی گئی، میاں نواز شریف کا طیارہ ائیر پورٹ پر کچھ دیر قیام کے بعد نواز شریف سمیت سعودی عرب جدہ روانہ ہوگیااس کے بعد میاں نواز شریف نے ہمیشہ دور اندیشی سے کام لیا کبھی بھی اپنے کارکن کو آزمائش میں ڈالااور نہ ہی مسلم لیگ (ن)کی ساکھ کو دائو پر لگایا اب انہیں معلوم ہو گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ (ن) کا کارکن نظریاتی نہیں لہذا فیصلے سوچ سمجھ کر کئے جائیں یہ بات بڑی واضح ہے کہ کسی بڑی آزمائش کا مقابلہ صرف اور صرف نظریاتی کارکن ہی کر سکتا ہے کسی شخصیت کے سحر میں مبتلا نہیں اس وقت دور اندیشیکا تقاضا ہے کہ کارکن کو آزمائش میں ڈالے بغیر تحریک کی ساکھ کو بچایا جائے ورنہ پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ انجام گلستان کیا گا ؟