خواب دیکھنے کا حق ہر انسان کو ہے، تحریک انصاف نے عام آدمی کو خواب دکھایا ہے جبکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، اے این پی، جمعیت علماء اسلام ف سمیت پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں نے عوام کے خواب توڑے ہیں لہذا سوچ سوچ کر اپنے آپ کو کھپانے والے پی ڈی ایم حکمرانوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ عوام کی اکثریت تحریک انصاف سے اس قدر محبت کیوں کرتی ہے، انھیں یہ آسان سی بات سمجھ بھی نہیں آسکتی کیونکہ عوام سے کبھی کوئی سروکار رکھا نہیں گیا، عمران خان کو سہی معنوں میں سیاسی عروج 2011 میں حاصل ہونا شروع ہوا، 2013 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف اپنے عروج کی بلندیوں کو چھو رہی تھی، عمران خان نے سیاسی عروج حاصل کرتے ہوئے عوام کو ازبر کروانا شروع کردیا کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، ان کے مابین نورا کشتی ہے اور یہ باریاں لگا کر اقتدار میں آتے ہیں۔ عمران خان کے اس نعرے کی مقبولیت سے بہت قبل عوام کی ایک بڑی اکثریت بالخصوص پڑھا لکھا طبقہ اس بات کو سمجھ چکا تھا کہ ان تمام کے درمیان اقتدار کیلئے رسہ کشی اندرون خانہ مفاہمت میں تبدیل ہوچکی ہے، اس کہانی کا آغاز اے آر ڈی کے قیام کے ساتھ ہوگیا تھا، محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد نواز زرداری بھائی بھائی کا چلن نظر آتا رہا، البتہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے گاہے بگاہے ایک دوسرے کے در پر بھی رہیں، جیسے سید یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کیلئے نواز شریف کالا کوٹ پہن کر عدالت پہنچ گئے۔ 2008 کے عام انتخابات کے بعد آصف علی زرداری نے پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کیخلاف گورنر راج نافذ کرنے کی منظوری دی لیکن ان دونوں سیاسی فریقین نے اقتدار کے کھیل میں ایک دوسرے کو اس حد تک ضرور قبول کر لیا تھا کہ کوئی دوسری سیاسی قوت اقتدار میں نہ آ سکے، کرپشن پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے 2008 کے بعد ایک دوسرے کیخلاف کارروائیوں کو تقریبا ختم کر دیا، شاید یہی وجہ تھی کہ عمران خان جب وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انھوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ جب میں ان کی کرپشن کیخلاف اقدامات اٹھاؤں گا، یہ کہیں گے کہ جمہوریت خطرے میں ہے اور پھر سارے اکٹھے ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف بعدازاں تمام سیاسی جماعتوں کو پوری قوم نے پی ڈی ایم اتحاد کے نام پر متحد ہوتے دیکھا اور تاحال یہ متحد ہیں، اسی اتحاد کے نام پر اقتدار میں ہیں، عوام نے ان تمام مناظر کو دیکھا اور دیکھ رہے ہیں، اوپر سے 9 اپریل 2022 کو عمران خان کو جس انداز میں اقتدار سے نکالا گیا، جس طرح تحریک انصاف کے رہنماؤں و کارکنوں پر مقدمات کی بوچھاڑ کر دی گئی، جس طرح عمران خان پر 145 سے زائد مقدمات درج کر دئیے گئے، حکومت کے ایسے بے رحم کھیل کے نتیجہ میں عوامی صفوں میں تحریک انصاف کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوتا چلا گیا، عمران خان کیلئے عوام کی محبت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، عمران خان نے اپنا سیاسی مقدمہ عوام کے سامنے لے جانے کا فیصلہ کیا تو حکومت نے ریاستی ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈہ اپنانا شروع کردیا، عوام نے ضد باندھ لی جبکہ حکمرانوں نے معیشت کا جنازہ نکالنا شروع کردیا، مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے گئے، صنعتی شعبہ کو بدترین بحران نے گھیر لیا، ملک میں درآمدات اور برآمدات کو تعطل کا شکار کردیا گیا، تمام بنیادی اشیا ء خوردونوش کو عام آدمی کی قوت خرید سے باہر نکال دیا گیا، ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافوں نے عوام کو مزید مایوس کردیا، غریب اور متوسط طبقہ بے روزگاری کی چکی میں پسنے لگا، عوامی سطح پر محرومی میں بدرجہ اتم اضافہ ہونے لگا اور آخر کار عوام کی مزید تعداد حکمرانوں سے بیزار ہونے لگی جبکہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا چلا گیا، اس سارے کھیل میں پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں نے اپنے پیروں پر مزید کلہاڑیاں اس طرح مارنا شروع کردیں کہ انھوں نے طاقت کے اندھے استعمال کو ہر موقع پر تیز کردیا، ایک طرف ہر روز عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں پر بلاجواز مقدمات درج کیے جاتے تو دوسری طرف ہر ریلی اور جلسے کو روکنے کی دھمکیاں دی جاتیں، ہر عدالتی پیشی پر یہ عمران خان کا راستہ روکنا چاہتے اور عوام سرخرو ہوتی۔ ان حالات و واقعات میں حکمرانوں نے عدلیہ کو بھی نہیں بخشا، عدلیہ کے خلاف قراردادیں پاس کی گئیں، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے کی غرض سے بل پاس کر کے اسے آئینی ترمیم کے متوازی بنانے کی بڑھکیں لگائی گئیں، توہین پارلیمنٹ کا بل بھی پاس کیا جاچکا ہے، اب آرمی ایکٹ کے تحت کاروائیوں کی اجازت دی جا چکی ہے، پی ٹی آئی کے وکیل، معروف قانون دان علی ظفر کا اس تناظر میں بیان بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے، علی ظفر نے واضح کیا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت کاروائیاں کی جاسکتی ہیں لیکن ان کا موقف ہے کہ ہونی نہیں چائیے، 9 مئی کے واقعات کے تناظر میںعمران خان کا مؤقف یہ ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کو اداروں سے لڑانا چاہتی ہے! بہرحال تحریک انصاف سے عوام کی محبت اور اداروں کی تکریم ان دونوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا، پی ٹی آئی کے 72 ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کالعدم قرار دئیے جانے کے بعد غور سے دیکھنا ہوگا کہ نواز شریف نے اچانک کیوں کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی کے حق میں نہیں اور پارٹی رہنماؤں کو اس بارے میں گفتگو کرنے سے روک دیا۔