جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اور پاکستان میں 1957 سے 1959 تک امریکہ کے سفیر kux n b x Denis نے اپنی کتاب The US Pakistan Relations 1947---2000 , the disenchanted allies میں لکھا ہے پاکستان میں امریکہ کے پہلے سفیر بال آہنگ جب اپنے کاغذات نامزدگی پیش کرنے کے لے 26 فروری 1948 کو گورنر جنرل ھاوس کراچی پہنچے تو قائد اعظم محمد علی جناح نے خود سفیر کا استقبال کیا۔ امریکی سفیر کے ساتھ آنے والے سفارت کار ڈیوڈ نیوزم نے اپنی والدہ کو خط میں بتایا کہ 71 سالہ محمد علی جناح بظاہر صحت مند ہیں لیکن جب وہ بولتے ہیں تو ان کی آواز میں کمزوری محسوس ھوتی ھے ۔امریکی سفیر کے کاغذات وصول کرتے ہوئے قائد اعظم نے جناح کیپ اور شیروانی پہن رکھی تھی ۔ امریکی سفیر نے اس موقع پر صدر ٹرومین کا پیغام پڑھ کر سنایا ۔ Kux Denis کے مطابق تین ہفتے بعد قائد اعظم نے امریکی سفیر کو کراچی میں ساحل سمندر پر اپنی کاٹیج میں چائے کی دعوت پر بلایا۔kux Denis کے مطابق اس وقت امریکی پریس پاکستان کے بارے میں لکھ رہا تھا کہ پاکستان کا مستقبل مخدوش ھے۔قائد اعظم نے امریکی سفیر کے ساتھ ساحل سمندر پر واک بھی کی۔ اس دوران قائد اعظم نے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر بات چیت کرتے ہوئے امریکی سفیر کو بتایا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ اس طرح کے تعلقات چاہتا ہے جس طرح کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا کے درمیان ہیں۔قائد اعظم نے امریکی سفیر کو پیشکش کی کہ وہ کراچی میں ان کی اقامت گاہ پر قیام کریں لیکن امریکی سفیر نے یہ پیشکش قبول نہ کی۔ جس پر قائد اعظم کو مایوس ہوئی۔ قائد اعظم امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات چاہتے تھے۔ یہ اتفاق کی بات تھی کہ اس سال 1948 کے ستمبر میں قائد اعظم کی وفات ہوئی اور سال کے آخر میں امریکی سفیر کو کینسر ہوا اور انہیں امریکہ جانا پڑا جہاں وہ بھی چل بسے۔ 1949 میں امریکہ نے بھارت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کو امریکہ کا دورہ کرنے کی دعوت دے دی ۔اس پر پاکستان میں سخت مایوسی کا اظہار کیا گیا ۔پاکستان کے وزیراعظم لیاقت علی خان نے ایک سفارتی چال چلنے کا فیصلہ کیا ۔انہوں نے تہران میں پاکستانی سفیر ،جو لیاقت علی خان کے معتمد ساتھی تھے، راجہ غضنفر علی خان سے ملاقات کی اور انہیں اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ امریکہ پاکستان کو نظرانداز کر رہا ہے۔ ہمیں امریکہ کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کوئی سفارتی چال چلنی پڑے گی۔ راجہ غضنفر علی خان نے تہران میں روسی سفارت کار سے ملاقات کی اور اسے بتایا کہ پاکستان کے وزیر اعظم روس کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ سرد جنگ کے اس مرحلے پر پاکستان کے روسی دائرہ اثر میں چلے جانے کی خبر نے امریکہ اور مغربی ملکوں میں کھلبلی مچا دی۔ابھی روس کے دورے کی تاریخ پر صلاح مشورہ جاری تھا کہ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر نے وزیر خارجہ ظفر اللہ خان سے ملاقات کی اور انہیں بتایا کہ لیاقت علی خان کے ماسکو کے دورے سے پاکستان کے مغربی ملکوں سے تعلقات خراب ہوں گے۔ چند دنوں میں امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا نے پاکستان کا دورہ کیا اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو واشنگٹن آنے کی باقاعدہ دعوت دے دی۔پاکستان میں آج تک یہ بات ہو رہی ہے کہ لیاقت علی خان نے ماسکو کا دورہ کیوں نہیں کیا؟ لیاقت علی خان کے دورے کے بعد گورنر جنرل غلام محمد ''وزیراعظم حسین شہید سہروردی اور دوسرے لیڈروں نے امریکی دورے کئے۔ایوب خان نے تو امریکہ کو پشاور کے قریب بڈھ بیر میں روس کی جاسوسی کے لئے ائر بیس بھی دیا جس سے روس پاکستان کا دشمن ہو گیا۔ روس نے اس کا بدلہ کشمیر پر پاکستان کی مخالفت اور مشرقی پاکستان پر بھارت کے حملے میں مدد کر کے لے لیا۔ ایوب خان امریکہ کے بلیو آ ئڈ بوائے تھے ۔ روس نے پاکستان سے کشمیر کو یو این میں ویٹو کر کے بھی بدلہ لے لیا۔امریکہ نے 1965 کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے سے انکار کردیا ۔پاکستان نے امریکہ کی دوستی کی بھاری قیمت ادا کی۔ بھٹو نے سیٹو اور سینٹو سے الگ ہونے کا اعلان کیا ۔ آزاد خارجہ پالیسی کی طرف پیش رفت کی، ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی ، امریکہ نے بھٹو کو منظر سے ہٹایا۔ جنرل ضیاء نے پاکستان کو امریکہ کی خوشنودی کے لئے سوویت فوج کے خلاف فرنٹ لائن سٹیٹ بنا دیا۔ ڈالر تو خوب آئے لیکن پاکستان کا نقصان ہوا ۔کرپشن ہوئی، میرٹ تباہ ہوا۔لیکن پاکستان کو دیوالیہ ہونے کا خطرہ نہیں ھوا۔ جنرل مشرف کو امریکہ نے ان مجاہدین کو ختم کرنے کا ٹاسک دیا جو پہلے سرخ فوج کے خلاف جہاد کر رہے تھے۔ پاکستان کا بیڑا غرق ہوا لیکن ڈالروں کی بارش ہوتی رھی۔ اب امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی نہیں رہی۔ اب بھارت امریکہ کا پارٹنر ہے۔ اسی لیے آئی ایم ایف ہمیں تنگ کر رہا ہے۔چین ھمارا ہمسا یہ ہے۔ سی پیک میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے ۔قرض دے رہا ہے۔روس اب تیل دے رہا ہے ،وقت بدل گیا ہے۔پاکستان کو بھی بدلنا پڑے گا۔ ٭٭٭٭