کون کہتا ہے کہ جماعت اسلامی کراچی مئیر شپ کا امیدوار حافظ نعیم الرحمن ہار گیا ہے ؟ جناب! حافظ نعیم الر حمن ایک مافیا کو شکست دینے میں کامیاب ہوچکا ہے اس کی تحریک نے جیالوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی لاکھ اپنی نام نہاد جیت کے ڈونگرے بجا ئے یہ وقت بتائے گا کہ ا سے یہ جیت کتنی مہنگی پڑے گی۔ تمام چینلز اور سوشل میڈیا پر مئیر کراچی کا انتخاب ٹاپ ترینڈ بن چکا ہے۔ قومی اور عالمی سطح پر پاکستان پیپلز پارٹی بارے کیا کچھ نہیں کہا جا رہاْ۔پاکستان پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری سے ترجمان تک سب ''جشن ''منا رہے ہیں نام نہاد جیت کے نشہ میں دھت ان کی زبان اور ہاتھ بے قابو ہو چکے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے جماعتی اور حکومتی عہدیدار ایسی ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں جنہیں زیب قرطاس کرنا مناسب نہیں،تاریخ گواہ ہے پاکستان پیپلز پارٹی کبھی بھی عوام میںاپنا ایک'' پازیٹو امیج'' بنانے میں کامیاب نہیںہو سکی ، اکثریت کی رائے مقدم ہوتی ہے، زبان خلق نقارہ خدا سمجھو ، نو لاکھ کے مقابلے میں تین لاکھ کی جیت کہاں کا انصاف ہے جناب ! آئیں آپ کو نو اور تین لاکھ کی منطق سمجھا ئیں تاکہ اصل قصہ سمجھ میں آجائے، پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی ''جیت ''کو یقینی بنانے کیلئے ''بڑی محنت'' کی اس کے لئیسرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت کراچی شہر کی یونین کونسل کی علاقائی تقسیم کی گئی جس میں جیالے ووٹرز اور ان کے علاقوں کا پورا پورا خیال رکھا گیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے امیدواروں کی یونین کونسل میں ووٹرز کی تعداد 500سے 900 تک رکھی گئی تاکہ انہیں زیادہ زحمت نہ ہو، لیکن جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کو یہ سہولت نہیں دی گئی مستزاد یہ کہ ان کی یونین کونسل میں ووٹر کی تعداد 5000 سے بھی ز ائد کردی گئی لیکن ''بڑی محنت اور منصوبندی'' کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی مئیر شپ کے انتخاب میں عددی برتری حاصل نہیں کر سکی، پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے تین لاکھ جبکہ جماعت اسلامی اور اس کی اتحادی جماعتوں نے نو لاکھ سے زائد جنرل ووٹ حاصل کئے یہ بات ناممکن نظر آرہی تھی کہ حافظ نعیم الرحمن ناکام ہوں لیکن مرتضیٰ وہاب کا دعویٰ تھا کہ جیالامئیر کراچی کے انتخاب میں کامیاب ہوگا اگرچہ ان کا یہ دعویٰ زمینی حقائق کے منافی تھا لیکن وہ یہ دلیل دیتے کہ صوبہ میں ہماری حکومت ہے اور مرکز میں ہم حکومت کے اتحادی ہیں لہذا کراچی کی تعمیر و ترقی کیلئے ضروری ہے کہ جیالا مئیر بنایا جائے جماعت اسلامی کا مئیر کراچی شہرکا مستقبل تاریک کردے گا کیونکہ اسے صوبہ اور مرکز سے تعاون نہیں ملے گا وہ بڑے اعتماد کے ساتھ بتاتے کہ کراچی مئیر شپ کیلئے اگرچہ نمبر گیم وہ نہیں جیت رہے لیکن پلمبر میں وہ جیت چکے ہیں یہ پلمبر گیم بھی بڑی دلچسپ حقیقت ہے نمبر اور پلمبر گیم کی حقیقت پہلی بار محترم راجہ ظفر الحق کی چیئرمین سینٹ کے انتخاب میں شکست کے موقع پر معلوم ہوئی سینٹ کی سربراہی کیلئے راجہ ظفر الحق اور صادق سنجرانی میں مقابلہ تھا نمبر گیم کے مطابق راجہ ظفر الحق کی جیت یقینی تھی اس روز کوریج کیلئے پارلیمنٹ کی راہداروں میں موجود تھا کہ ملاقات ایک ''اہم شخصیت'' سے ہوئی موقع غنیمت جانتے ہوئے پوچھا کہ بتائیں جناب! آج کون جیت رہا ہے ؟ انھوں نے ذرا ٹھر کر جواب دیا ۔ صادق سنجرانی، ان کے جواب نے مجھے حیران کردیا ، میں نے کہا جناب نمبر گیم میں راجہ صاحب جیت چکے ہیں وہ مسکرائے اور بولے کہ نمبر گیم میں جیت چکے ہیں لیکن پلمبر گیم میں نہیں ، پلمبر گیم میں صادق سنجرانی ہی جیتیں گے میں نے استفسار کیا کہ کیا یہ بات مسلم لیگ (ن) کو معلوم نہیں اور کیا پاکستان پیپلز پارٹی اس حقیقت بارے کچھ نہیں جانتی انھوں نے کہا کہ سب باتیں نہ پوچھو پیارے ، اگر مسلم لیگ (ن) کو جیت کایقین ہوتا پھر راجہ ظفر الحق کبھی بھی ان کے امیدوار نہ ہوتے ،رہی بات پاکستان پیپلز پارٹی ان کے ساتھ معاملات طے ہو چکے ہیں چند روز میں نتائج آجائیں گے بس اس کے بعد اب کوئی بات نہیں کرنی۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی پر پابندی عائد کردی گئی جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کو رجسٹرڈ کرایا گیا مخدوم امین فہیم پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ منتخب ہوئے ایک وضعدارسیاستدان تھے ان کی اپنی جماعت کے ساتھ وابستگی بے لوث تھی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شھادت کے روز پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں سے کوئی بھی ان کے جسد خاکی کے ساتھ موجود نہیں تھا یہ مخدوم صاحب ہی تھے جنہوں نے پوری رات راولپنڈی جنرل ہسپتال ایمرجنسی وارڈ کی سیڑھیوں پر گزاری محترمہ کی شھادت کے بعد مخدوم امین فہیم بارے کہا جارہا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے سربراہ کی حیثیت سے وہ ہی قومی اسمبلی میں قائد ایوان ہو نگے لیکن قرعہ زرداری چاہ یو سف سے صدا کے حق میں نکل آیا جس کے بعد مخدوم امین فہیم اپنی ہی جماعت میں راندہ درگاہ بن گئے اس دوران ان کا ایک مختصر انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا میں نے استفسار کیا مخدوم صاحب ! وزارت عظمیٰ کیلئے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کا انتخاب آپ کیوں نہیں تھے؟ وہ مسکرا دئیے تاہم ان کی مسکراہٹ میں ایک بے بسی عیاں تھی چند روز بعد انھوں نے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کی صدارت سے استعفیٰ دیدیا پھر وہ اپنی موت تک غیر فعال رہے آج مسئلہ کراچی کی مئیر شپ کا نہیں ان جمہوری روایات و اقدار ہے جس کا پاکستان پیپلز پارٹی نے جنازہ نکال دیا گیا ہے کیا کراچی کی مئیر شپ کیلئے بنیادی شرط مرکز اور صوبہ میں حکومت ہونا ضروری ہے یا پھر عددی اکثریت ، ہمسایہ ملک نئی دہلی کی مئیر ڈاکٹر شیلے کا تعلق'' عام آدمی پارٹی'' سے ہے انھوں نیحکمراں جماعت کے امیدوار کو شکست دی اور مئیر منتخب ہوئیں مرتضیٰ وہاب کی منطق کے مطابق انہیں مئیر منتخب ہی نہیں ہونا چا ہیے تھا کیونکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے لیکن ایسا نہیں ہوا وہاں بی جے پی نے جمہوری فیصلہ کو تسلیم کیا ، یہ جان لیں نمبر کی جگہ پلمبر کا راستہ کھولنے سے کوئی خیر نہیں آئے گی۔