اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی دفتر 1اے ذیلدار پارک اچھرہ کے سبزہ زار پر 23دسمبر1986ء اسلامی جمعیت طلبہ کے39ویں یوم تاسیس کے موقع پر ایک اہم اجتماع کا انعقاد کیا گیا، اس اجتماع کی صدارت امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد کر رہے تھے جواں سال امیر العظیم نو منتخب ناظم اعلیٰ اسلامی جمعیت طلبہ ،لیاقت بلوچ سمیت دیگر سابقین جمعیت اور عمائدین جماعت صدر مجلس کے دائیں اور بائیں رکھی گئی اپنی اپنی نشستوں پر تشریف فرما تھے مرکزی دفتر ا سلامی جمعیت طلبہ کے سبزہ زار پر منعقد کئے گئے اس اجتماع میں نظم و ضبط مثالی تھا وقت مقررہ پر تلاوت کلام پاک سے اجتماع کا آغاز کیا گیانعت رسول مقبول ﷺ کے بعد سہیل حنیف نے ایک نظم پیش کی، جس کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا، امیر العظیم نے اسلامی جمعیت طلبہ کے قیام اور جدوجہد بارے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور معزز مہمانوں کو خوش آمدید کہا یہ وہ دور تھا جب ایک طویل مارشل لاء کے بعد سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دیدی گئی تھی 1985ء کے غیر جماعتی عام انتخابات کے بعد قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ایوان مکمل بحال کر دئے گئے تھے اور ایک طویل گورنر راج کے بعد صوبائی اسمبلیاں اور صوبائی حکومتیںبھی اپنے اپنے محاذ پر مورچہ زن تھیں، پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے مزے میاں نواز شریف لوٹ رہے تھے اور انہیں صدر مملکت جنرل محمد ضیاء الحق کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی وفاق میں شریف النفس محمد خان جونیجو وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان تھے وہ پاکستان مسلم لیگ کی سربرا ہی کے فرائض بھی سر انجام دے رہے تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ کو شش کر رہے تھے کہ جمہوریت کے پودے کی آبیاری کی جائے اور اسے پھلنے اور پھولنے دیا جائے بات ذرا دور نکل گئی دوبارہ اسلامی جمعیت طلبہ کے یوم تاسیس کے سلسلہ میں منعقدہ اجتماع کی روداد کی طرف آتا ہوں ایک لمبے عرصہ بعد سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ہو ا تھا، جس کی وجہ سے مقررین کا جوش و جذبہ دیدنی تھا تما م مقررین نے بھر پور انداز میں اپنے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ اپنی اپنی یادوں کا تذکرہ کیا،نظریہ پاکستان کی بقاء کی خاطر اپنی جان و مال کی قربانی دینے والے مشرقی پاکستان کے بھائیوں کو بھی یاد کیا گیا جمہوریت اور مارشل بارے باتیں ہوئیں اور ملک و قوم کے مستقبل بارے گفتگو کی گئی، آخر میں صدر مجلس میاں طفیل محمد کو خطاب کی دعوت دی گئی جس کے ساتھ ہی فضا میں ہر طرف نعرہ تکبیر اللہ اکبر کی صدا سنائی دینے لگی صدر مجلس نے اپنے خطاب کا آغاز انتہائی دھیمے لہجہ میں کیا انھوں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے 39ویںیوم تاسیس کے موقع پر عمائدین جمعیت کو مبارکباد دی اور انہیں تلقین کی کہ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے نصب العین اور اغراض و مقاصد کی تکمیل کیلئے اپنی بھرپور سعی جاری رکھیں، میاں طفیل محمد کا خطاب آخری مراحل میں تھا کہ شرکاء نے جمعیت بارے خیر مقدمی نعرہ بازی شروع کردی اس دوران ہی کسی نے صدر جنرل ضیاء الحق بارے منفی الفاظ میں نعرہ لگانے کی کوشش کی جس کا میاں طفیل محمد نے فوری سختی سے نوٹس لیا اور اپنی تقریر روک دی ان کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا، سٹیج پر بیٹھے ہوئے تمام عمائدین جمعیت و جماعت میں سراسیمگی پھیل گئی، میاں طفیل محمد نے کہا کہ صدر جنرل ضیاء الحق سے جماعت اسلامی کا سیاسی اختلاف ضرور ہے لیکن ہم ان کی شخصیت بارے کسی قسم کا کوئی منفی لفظ اور نہ ہی غیر مہذب گفتگوسننے کو تیار ہیں، اسلامی جمعیت طلبہ ایک صالح نوجوانوں کا ہراول دستہ ہے ان کے اجتماعات میں ہمیشہ خیر کی باتیں ہوتی ہیں ہر شخصیت کے بھلے کی بات کی جاتی ہے تہذیب و تمدن ، شائستگی اور شرافت اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ نوجوانوں کی پہچان ہے میں امید کرتا ہوں کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی قیادت اپنے39ویں یوم تاسیس کے موقع پر یہ عہد کرے گی کہ وہ شرافت و متانت اور دیانت و صالحیت کو اپنا معیار بنائے گی انہیں الفاظ کے ساتھ میاں طفیل محمد نے اپنی تقریر کا اختتام کیا۔ میاں طفیل محمد کی شخصیت کے قول وفعل میں تضاد نہیں تھا اس اجتماع کے انعقاد کے چند ماہ بعد مجھے جامع مسجد منصورہ لاہور میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا اتفاق ہوا پیر اشرف مسلم لیگی رہنماء نے بھی جامع منصورہ میں نماز جمعہ ادا کی میاں طفیل محمد بھی نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے ادھر ہی موجود ہوتے تھے نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد دور دراز سے آئے ہوئے کارکنان جماعت اسلامی میاں صاحب سے سلام دعا کر رہے تھے کہ پیر اشرف صاحب مسلم لیگی رہنما نے بھی میاں صاحب سے مصافحہ کیا، میاں صاحب نے ان کا بھر پور خیر مقدم کیا، پیر صاحب نے میاں صاحب سے پوچھا کہ اب جماعت اسلامی کی جنرل ضیاء بارے کیا پالیسی ہوگی میاں صاحب زیر لب مسکرا دئیے اور بر جستہ کہا کہ جماعت اسلامی کی پالیسی جماعت اسلامی کی شوریٰ بناتی ہے وہ اس بارے ضرور سوچ و بچار کر رہی ہوگی آپ فکر مند نہ ہوں لیکن پیر صاحب مجھے اس بات کا بڑا افسوس ہے کہ سیاست میں غیر مہذب اور غیر شائستہ الفاظ کا ستعمال پروان چڑھ رہا ہے اسے روکا جانا چاہیے یہ کون لوگ ہیں جو ضیاء ہائے ہائے کے نعرے لگاتے ہیں، آپ ذرا اپنی قیادت سے اس موضوع پر بات کریں ان دنوں جنرل ضیاء الحق کی طرف سیاسی سرگرموں کی آزادی ملنے کے بعد مختلف سیاسی جماعتیں اپنے جلسوں میں جنرل ضیاء بارے اچھے الفاظ استعمال نہیں کرتیں تھیں جس کا قلق میاں صاحب کو تھا اور وہ اسے روکنے کی بھرپور کوشش کرتے تھے اور ہر موقع پر اپنے حصے کا کام کرتے تھے، بعض جمہوریت کے دعویداروں نے اس کا نوٹس نہیں لیا جس کے نتائج آج ہم بھگت رہے ہیں شاید ان سیاسی جماعتوں کو اس وقت اس کا احساس نہ ہوا ہو کیونکہ اس وقت انہیں یہ الفاظ جنرل ضیاء بارے اچھے لگتے تھے لیکن آج یہ الفاظ ان کے اپنے لئے بولے جارہے ہیں پھر انہیں احساس ہو رہا ہے کہ سیاست میں شائستگی ختم ہوتی جارہی ہے اگر اس وقت ہی ان کا قلع قمع کردیا جاتا ہے آج یہ دن دیکھنے نہ پڑتے شکو ہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے