عالمی سطح پر ہلچل مچی ہوئی ہے چین تقریبا کھل کر سامنے آ چکا ہے اس کا یہ عہد کہ جنگ کے ذریعے نہیں کاروبار کے ذریعے دنیا فتح کر کے دکھائے گا صاف نظر آرہا ہے وہ اسی طرف گامزن ہے آج دنیا ہتھیار کی جگہ روٹی کو اہم تصور کر رہی ہے۔ تیل اور لوہے کے ذریعے ایک دوسرے پر غلبے کی داستانیں رقم ہوئیں مگر اب یہ بہت مہنگا ہوچکا۔ عالمی حالات کا رخ اب اس جانب ہے کہ پہلے جنگوں کے لیے سازشیں ہوتی تھیں اور اب معیشت کے لیے ہو رہی ہیں۔ ہمیشہ سے ایک دوسرے کے مخالف ممالک چین کی چھتری کے نیچے کھڑے نظر آتے ہیں سعودیہ ایران رشیا انڈیا یا۔د رکھیے سعودیہ سے مراد تقریبا عرب ہے یعنی اگر آپ دنیا کا نقشہ دیکھیں تو تقریبا نصف سے زیادہ کاروبار کی خاطر ایک ہی صف میں نظر آئیں گے سب نظریے ، اختلافات ایک دم سے دفن ہوگئے کیا کوئی اتنی تیزی سے بھی پیچھے ہٹ سکتا ہے کسی نے سوچا بھی تھا مگر ضروریات بہت کچھ کروا دیتی ہیں ۔ پہلے پہل جنگ جنگیں قبضہ کے لئے ہوتی تھیں اور آج کاروبار کے لیے ہوتی ہیں۔ایک دوسرے کیساتھ لین دین کے لیے معاشی جنگیں ہو رہی ہیں ۔ 76 سال سے ہم تقسیم در تقسیم کا شکار ہیں۔ یکجہتی قیام پاکستان تک ہی رہی تھی اور آج 2023 نصف گزر چکا ہے۔ سب سے بڑا کارنامہ آئین پاکستان کاعمل میں آنا ہے ۔ ایک وہ وقت تھا جب سب یکجا ہوئے بدقسمتی سے جو آئین بنایا گیا اس میں بھی اتنی تبدیلیاں کردی گئیں کہ وہ اپنی اصلی شکل میں برقرار نہ رکھ سک جاا.جس وقت ہم نے آزادی حاصل کی اس وقت بھی دنیا میں طاقت کی تقسیم ہو رہی تھی ہمیں ہمارا مکمل حق نہ دیا گیا جس طرح کی تقسیم ہم چاہتے تھے ایسا نہ ہوسکا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقسیم کے ساتھ ہی متنازعہ امور کھڑے ہوگئے جو آج تک بدترین دشمنی کی شکل میں موجود ہیں۔دوسرا موقع جب ایک بار پھر دنیا میں طاقت کی تقسیم ہورہی تھی یعنی سوویت یونین کا انہدام اور امریکہ جیسی طاقت کا ظہور ہورہا تھا، پوری دنیا نے اپنا اپنا حصہ خوب وصول کیا اورہم ایسے یرغمال ہوئئے فائدہ کیا اٹھاتے مستقل روگ لگا بیٹھے اور آج پھر تیسرا موقع آچکا ہے اور یہ موقع جنگی نہیں معاشی تقسیم کا ہے جس پر بہت عرصے سے کاغذکے ایک ٹکڑے کا راج تھا آج اسی کاغذ کے ٹکڑے یعنی ڈالر کو اپنی بقا کی فکر ہے ۔ جنگ کے ذریعے اپنے فیصلے منوانے کا زمانہ گیا یہ بہت تیزی سے آگے بڑھیں گے۔ اب آتے ہیں ہم کہاں کھڑے ہیں بلکہ بیٹھے ہوئے ہیں ہمیں یہ سمجھناہوگا ہمارے لیے یہ آخری موقع ہے مگر آج بدقسمتی سے ہم بہت نازک ترین حلات میں ہیں۔ ہم بدترین تقسیم تفریق، ضد، جھوٹی انا کی زد میں ہیں اور اس فکر سے بالکل بے نیاز ہیں کہ دنیا میں کیا تبدیلیاں آ رہی ہیں اوعر ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بیکار ب اورے سود کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ کسی عالمی سازش کا حصہ نہیں لگتا انہیں کیا ضرورت ہے سازش کرنے کی ہم خود ہی کافی ہیں اپنے خلاف سازش کرنے میں۔اگر آج حضرت قائداعظم زندہ ہوتے تو وہ سبھی کو قصوروار ٹھہراتے بلکہ شٹ اپ کال کرتے کہ ایسے ملک چلاتے ہیں ایسے تو ایک گھر نہیں چلتا۔ ہر بات کی کوئی نا کوئی حد ہوتی ہے لیکن ہم ہیں کہ ایک ہی ڈگر پر چلے جارہے ہیں اور کوئی اکتاہت بھی محسوس نہیں کرتے ہے۔ کمال یہ ہے کہ ہر روز ایک نئی فلم نئی لفاظی کے ساتھ چلائی جاتی ہے ۔کیا ملک ایسے چلا کرتے ہیں۔ ہر ادارے کو ہم نے متنازعہ بنا دیا ۔پورے ملک میں کوئی ایسی شخصیت دکھائی نہیں دیتی جو آج رہنمائی کرے ، قوم کو سمجھائے اور قوم اس کی نصیحت کو مان لے، کوئی ایک بھی نہیں۔ اداروں پر حملے ہو رہے ہیں، اداروں کے احکامات کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، قوم کا حال یہ ہے کہ کوئی اس طرف کوئی دوسری طرف ،ہم نے اگر آگے بڑھنا ہے دنیا کے ساتھ چلنا ہے اور اگر ہم اپنی ریا ست کے ساتھ مخلص ہیں تو ہمیں اس کا عملی ثبوت دینا ہو گا اور ایک دوسرے کے خلاد سیز فائر کرنا ہو گا ۔ کوئی ایک تھنک ٹینک بنائیں جو خود مختار ہو جس میں معیشت دان دانشور بٹھائے جائیں وہ ترجیحات بنا کر دیں اور ان کے فیصلوں پر سختی سے عملدرآمد کیاا جائے، ورنہ ہم تیسرا اور آخری موقع بھی ضائع کر دیں گے ۔یہ سب کچھ کون کرے گا ،سچی بات ہے میرے قلم کو کوئی نام ہی نہیں مل رہا۔ کاش ہم برادری ازم فرقہ بندی سیاسی تقسیم لسانی تقسیم سے جان چھڑوا سکیں آسف علی زرداری ،نواز شریف ،عمران خان سمیت تمام سیاست دان صرف اور صرف اس ملک کے لیے اکٹھے ہوں، معیشت کی بہتری کے لیے اکٹھے ہوں۔ آج ملک کی بھاگ دوڑ انہی لوگوں کے ہاتھ میہں ہے۔ دنیا بھی ہمیں تبھی کندھا فراہم کرے گی جب ہم کسی ایک نقطے پر جمع ہونگے ایک دوسرے کو برداشت کریں گے مگر افسوس بظاہر ایسا کچھ نہیں ہونے کا امکان کم ہے۔