بجھتا ہوا چراغ بچانے نہیں دیا تھوڑا سا آسرا بھی ہوا نے نہیں دیا آنسو پلٹ کے آ گئے چھو کر ہمارا دل پتھر نے پانیوں کو سمانے نہیں دیا کیا کیا جائے مشکل یا برا وقت اکیلا نہیں آتا، اب خانما خراب پھرتے ہیں اور پھر کچھ مینوں مرن دا شوق وی سی‘ یہ بھی اچھا ہوا کہ لائیو سپیچ پر پابندی لگی اور ریکارڈ تقریر چلائی جائے گی۔ ایک اچھی پیش بندی ہو گئی کہ مقرر کے لئے بھی اس میں خیر ہے کہ ایڈیٹنگ میں طوفانی لہروں کو دبا دیا جائے گا اور اتنی تقریر یہ نشر کی جائے گی جتنی کہ سننے والے سن سکتے ہیں ۔باقی جسے اپنی تسلی کرنی ہے وہ سوشل میڈیا پر ڈھونڈ لیں گے۔اچھا کیا اگر پیارے روٹھ گئے اور تھوڑا سا ردعمل دے دیا گیا: تمہارے ساتھ رہنا ہے مگر ایسے نہیں رہنا تمہیں گر کچھ نہیں سننا ہمیں بھی کچھ نہیں کہنا اصل میں وقت کے تقاضے کچھ اور ہیں اور ہو کچھ اور رہا ہے۔ اقتدار حاصل کرنے والوں نے تو اپنا سب کچھ دائو پر لگا دیا ہے اور سوچتے بھی نہیں کہ کالیے تیرا بنے گا کیا۔انہوں نے تو عوام کو شکنجے میں کس رکھا ہے کہ انہیں مطلوبہ خون نکالنا ہے۔آپ نے ہسپتالوں سے باہر کاروباری لوگ نہیں دیکھے اور وہ ڈاکٹر جو خون تجویز کرتے ہیں اور پھر وہ ان بٹوین لوگ جو خون کے لئے مخصوص دکانوں پر جاتے ہیں سب اسی خون پر پلتے ہیں انسان بہت سنگدل ہے جو قبریں تک جا کھودتا ہے۔اب کیا ہونا باقی رہ گیا ہے۔ اب یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ایک کروڑ اکہتر لاکھ صارفین پر فیول ایڈجسٹمنٹ ختم کی جا رہی ہے تو یہ صرف وقتی طور پر آپ کو مطمئن کیا جا رہا ہے کہ لوگوںنے باہر نکل کر توڑ پھوڑ شروع کر دی ہے۔ حکمران جانتے ہیں بقول خالد احمد: لوگ جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے سنگ آنکھیں نہیں رکھتے ہیں کہ سر دیکھیں گے انہیں وہی کام کرنا ہے جو ان کے ذمہ لگایا گیا ہے یا پھر جس کا انہوں نے وعدہ کر رکھا ہے۔بس کیا کریں ایک طبقہ ہے کمائے گی دنیا کھائیں گے ہم۔کی مصداق ہمارے لئے مسئلہ بن چکا ہے۔ پچھلے دور میں کم از کم سبزی اور دالیں رسائی میں تھیں اب سو روپے کلو سے کم کوئی سبزی نہیں، ویسے بھی اب ہر چیز پائو کے حساب سے بکتی ہے۔ آپ یقین مانیے میں اپنے قریبی رشتہ داروں کی بات کرتا ہوں۔ میری سسٹر ان لا جو بے چاری اپنے ایک بچے کے ساتھ پانچ مرلے کے مکان میں رہتی ہے، اس کا آٹھ ہزار روپے بجلی کا بل آیا جو روٹین میں تین ہزار سے نہیں بڑھتا تھا۔وہ بے چاری بھاگ کر اوپر والے پورشن میں پتہ کرنے گئی تو وہ بھی سر پکڑ کر بیٹھتے تھے ،وہاں بھی صرف میاں بیوی رہتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ایک ہی پنکھا چلا لیں اور کوئی اے سی وے سی کا تو نام و نشان نہیں، ان کا بھی آٹھ ہزار کے قریب بل آیا۔اس پر شہباز شریف نوٹس لے رہے ہیں ان نوٹسز سے تو عوام پہلے ہی ڈرے ہوئے یں۔عمران خاں بھی نوٹس لیتے تھے اور پھر اس چیز کی اہمیت اور قیمت بڑھ جاتی تھی۔ اصل میں کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں لگتا ہے کہ اداروں کے ذمہ لگا دیا گیا ہے کہ اتنی رقم درکار ہے اور آپ اسے پیدا کریں، تحقیقات سب ایک ڈرامہ: ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک سیاست کے میدان میں بھی گند پڑا ہوا ہے، سب کچھ الجھا دیا گیا ہے، یہ ریشم کے دھاگے پر پڑے ہوئے گنجل کی طرح ہے ،سرا ہاتھ میں نہیں آ رہا۔لکھنے والے سوال کرتے ہیں کہ عمران خاں کو سیلاب زدگان کی فکر نہیں اور یہ بات میں کئی روز پہلے لکھ چکا ہوں کہ اسے اپنے امیر کبیر سپورٹرز کو ساتھ ملا کر آفت زدہ علاقوں میں جانا چاہیے تاکہ ان کا ایک اچھا امیج بنے مگر انہیں اس وقت اپنی پڑی ہوئی ہے، انہیں شہباز گل کو پکڑ کر پیغام دے دیا گیا ہے ،پھر ان کا اپنا ردعمل دھمکی آمیز تھا اور اس نے ان کے لئے مزید مسائل پیدا کر دیے ہیں، یہ درست ہے کہ یہ ان کا انداز سیاست ہے اور اس میں دہشت گردی والی بات تو کم از کم نہیں مگر آپ کا غیر محتاط رویہ ناقدین کو موقع فراہم کر رہا ہے۔کسی نے درست کہا کہ اچھے لیڈر کو باوقار انداز اختیار کرنا چاہیے۔ بعض اوقات ایسا ہوا کہ کچھ فیصلے خان صاحب کے حق میں آئے تو حاشیہ نشینوں نے کہا کہ بس خان صاحب یہ آپ کی دہشت اور رعب کے باعث ہوا، یعنی ان کے تندو تیز رویے کو سراہا۔پھر ایسا ہوا کہ سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلنے لگے۔اس سے ادارے بھی زچ ہو گئے، طاقت اور ووٹرز تو خان صاحب کے پاس ہیں ،یقینا ان کو استعمال کرنے کے لئے حکمت کی ضرورت ہے۔وہی سوال کہ اگر وہ نوبت ہی نہ آئی تو پھر قانونی جنگ ضروری ہے۔ بات پھر میں کرنے لگا ہوں کہ حکومت حاصل کرنے والوں کو اب عوام پر اعتماد نہیں بلکہ حکمرانوں کو اپنے آپ پر خود بھی اعتماد نہیں ۔کراچی میں پی ٹی آئی کا جیتنا معمولی بات نہیں کہ وہ ایم کیو ایم کا گڑھ ہے اب لوگ عمران خاں کے ساتھ کھڑے ہیں ۔بلکہ پی ڈی ایم کے خلاف ہیں کہ انہوں نے انہیں بہت بڑا دھوکہ دیا۔ مسئلہ تو یہی ہے کہ خان صاحب اور ان کے حواری الٹے سیدھے بیان دے کر خاں صاحب کو متنازعہ بنا رہے ہیں، ایک مرتبہ میں پھر باور کروا دوں کہ مذہب کو سوچ سمجھ کر استعمال کیا جائے۔یہ بہت حساس معاملہ ہے وجہ یہ کہ صبر آپ کے پاس نہیں آپ کسی بھی انداز میں بات کر رہے ہوں احتیاط کریں۔ خان صاحب سب کچھ سمجھتے ہیں مگر کر کچھ نہیں سکتے۔ لوگ سمجھتے ہیں بلکہ پی ٹی آئی والے سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں ان کی حکومت کے موجودہ پنجاب کا سیٹ اپ خان صاحب کے حق میں نہیں جاتا، یہ تو توازن قائم کیا گیا ہے کہ دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔پرویز الٰہی لوگ جس کے ساتھ ہیں، اسی کے ساتھ ہیں، بتانے کی ضرورت نہیں۔ تبھی تو وہ بازو تڑوا کر بھی امید سے رہے اور ان کی امید بر آئی۔ ق لیگ والے سیمی الیکٹی بلز ہیں۔خان صاحب کے دوست بھی نارمل نہیں رہے۔ امین گنڈا پور اٹھتا ہے تو کہتا ہے ہم اسلام آباد پر قبضہ کر لیں گے۔ کوئی کہتا ہے کہ ہم آگ لگا دیں گے اور یہ ساری باتیں انتہا احمقانہ اور بچگانہ ہیں۔یہ نوجوانوں میں تو تھرل پیدا کر سکتی ہیں کہ جو نتائج سے بے نیاز ہوتے ہیں مگر ذمہ دار شہری اور محبت وطن اس قسم کی باتوں کو پسند نہیں کرتے۔جو بھی ہے فارن فنڈنگ کیس اور توشہ خانہ کے معاملات کو دانشمندی سے طے کرنا ہو گا۔ آپ خود ہی تو کہتے تھے کہ انصاف سب کے ساتھ ایک جیسا ہونا چاہیے ایک شعر اور اجازت: خوبصورت وہ دن محبت کے کچھ اشارے سے کچھ کنائے سے